’’وہ مجھے مار دیتے…‘‘ نزدیک ہی کھیل رہی اپنی چھ سالہ بچی کی جانب دیکھتے ہوئے ۲۸ سالہ ارونا حیرت زدہ ہو کر کہتی ہیں۔ ’وہ‘ ارونا کے خاندان کے افراد تھے، اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ارونا نے ایسا رویہ کیوں اختیار کیا تھا۔ ’’میں چیزیں پھینک دیتی تھی۔ میں گھر میں نہیں رکتی تھی۔ ہمارے گھر کے قریب کوئی نہیں آتا تھا…‘‘

اکثر، وہ تمل ناڈو کے کانچی پورم ضلع میں اپنے گھر کے قریب پہاڑیوں میں ادھر ادھر بھٹکتی رہتی تھیں۔ کچھ لوگ انہیں دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے کہ کہیں وہ انہیں چوٹ نہ پہنچا دیں، جبکہ کچھ دیگر انہیں پتھر پھینک کر مارتے تھے۔ ان کے والد انہیں گھر واپس لے آتے، اور بعض اوقات باہر جانے سے روکنے کے لیے کرسی سے باندھ دیتے تھے۔

جب ارونا (یہ ان کا اصل نام نہیں ہے) کی عمر ۱۸ سال تھی، تو ان میں شیزوفرینیا کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس بیماری نے ان کے سوچنے، محسوس کرنے اور رہن سہن کے طریقے کو متاثر کیا تھا۔

کانچی پورم کے چینگل پٹو تعلقہ کے کونڈنگی گاؤں کی دلت کالونی میں اپنے گھر کے باہر بیٹھی ارونا  مشکل دنوں کے بارے میں بات کرتے کرتے اچانک وہاں سے اٹھ کر چلی جاتی ہیں۔ گلابی نائٹی میں ملبوس اور باریک کٹے ہوئے سر کے بالوں، لمبی قامت  اور سانولی رنگت والی یہ خاتون چلتے ہوئے جھک جاتی ہیں۔ وہ اپنی ایک کمرے کی جھونپڑی میں داخل ہوتی ہیں اور ڈاکٹر کے نسخے اور دو گولیوں کی پٹیوں کے ساتھ واپس آتی ہیں۔ ’’اسے  لینے کے بعد مجھے  نیند آجاتی ہے۔ دوسری گولی اعصاب سے متعلق مسائل کو روکتی ہے،‘‘ وہ گولیاں دکھاتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’اب اچھی طرح سے سوتی ہوں۔ میں دوائیں لینے کے لیے ہر ماہ سیمبکّم [پرائمری ہیلتھ سنٹر] جاتی ہوں۔‘‘

اگر شانتی سیشا نہ ہوتیں تو ارونا کی بیماری کی تشخیص ہی نہیں ہوئی ہوتی۔

Aruna and her little daughter in their home in the Dalit colony in Kondangi village, Kancheepuram district.
PHOTO • M. Palani Kumar
Shanthi Sesha, who was the first to spot Aruna's mental illness. Her three decades as a health worker with an NGO helped many like Aruna, even in the remotest areas of Chengalpattu taluk, get treatment and medicines
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: کانچی پورم ضلع کے کونڈنگی گاؤں کی دلت کالونی میں واقع اپنے گھر میں ارونا اور ان کی چھوٹی بیٹی۔ دائیں: شانتی سیشا، جنہوں نے ارونا کی دماغی بیماری کی سب سے پہلے نشاندہی کی تھی۔ ایک این جی او سے وابستہ ہیلتھ ورکر کے طور پر انہوں نے تین دہائیوں تک (چینگل پٹو تعلقہ کے دور افتادہ علاقوں سمیت) علاج اور ادویات حاصل کرنے میں ارونا جیسے بہت سے لوگوں کی مدد کی ہے

۶۱ سالہ شانتی کو معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے شیزوفرینیا میں مبتلا ارونا جیسے سینکڑوں لوگوں کی مدد کی تھی۔ صرف ۲۰۱۷ سے ۲۰۲۲ تک شانتی نے چینگل پٹو میں ۹۸ مریضوں کی شناخت کرکے انہیں طبی نگہداشت مہیا کرانے میں مدد کی تھی۔ شیزوفرینیا ریسرچ فاؤنڈیشن (اسکارف) سے معاہدہ شدہ کمیونٹی ہیلتھ ورکر کے طور پر شانتی کی پہچان کونڈنگی گاؤں میں ذہنی طور پر علاحدگی کے شکار لوگوں کے ساتھ کام کرنے والی کارکن کے طور پر تھی۔

جب ایک دہائی قبل شانتی کی ملاقات ارونا سے ہوئی تھی تو ’’وہ جوان اور دبلی پتلی تھی، اور ابھی تک شادی شدہ نہیں تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’وہ بس ادھر ادھر بھٹکتی رہتی تھی، کھانا بھی نہیں کھاتی تھی۔ میں نے اس کے گھر والوں سے کہا کہ اسے تیروکلوکندرم کے میڈیکل کیمپ میں لے آئیں۔‘‘ اسکارف کی جانب سے ہر ماہ شیزوفرینیا میں مبتلا لوگوں کی تشخیص اور علاج کے لیے کیمپ لگایا جاتا تھا۔

جب ارونا کے گھر والوں نے انہیں کونڈنگی سے تقریباً ۳۰  کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تیروکلوکندرم لے جانے کی کوشش کی تو وہ تشدد پر آمادہ ہو گئیں اور کسی کو بھی اپنے قریب آنے دینے سے انکار کر دیا۔ ان کے ہاتھ اور ٹانگیں باندھ کر کیمپ میں لے جایا گیا۔ شانتی کہتی ہیں، ’’[ایک ماہر نفسیات نے] مجھ سے کہا تھا کہ اسے ۱۵ دنوں میں ایک بار انجکشن لگائیں۔‘‘

انجیکشن اور ادویات کے علاوہ ہر ۱۵ دن بعد کیمپ میں ارونا کی کونسلنگ کی جاتی تھی۔ شانتی کہتی ہیں، ’’کچھ سالوں کے بعد اس کا علاج جاری رکھنے کے لیے میں اسے سِیمبکّم پرائمری ہیلتھ سنٹر لے گئی۔‘‘ ایک اور این جی او (بینئن) پی ایچ سی میں دماغی صحت کی کلینک چلا رہی تھی۔ شانتی کہتی ہیں، ’’ارونا [اب] بہت بہتر ہے۔ وہ اچھی طرح سے بات کرتی ہے۔‘‘

کونڈنگی گاؤں کا مرکز ارونا کے گھر سے چند گز کے فاصلے پر ہے۔ یہاں نائیڈو اور نائکر جیسی ذاتوں کا غلبہ ہے۔ شانتی کا تعلق نائیڈو ذات سے ہے۔ شانتی کو لگتا ہے کہ ’’چونکہ ارونا کا تعلق ان کی ذات [درج فہرست ذات] سے ہے، اس لیے انہوں نے اسے [دلت کالونی میں] یہاں رہنے کی اجازت دی۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ کالونی کے باشندے نائیڈو یا نائکر محلوں میں نہیں آتے ہیں۔ ’’اگر ارونا یہاں قدم رکھتی تو لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی۔‘‘

ارونا کے علاج کے چار سال بعد ان کی شادی ایک ایسے شخص سے کر دی گئی، جس نے انہیں حاملہ ہونے پر چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے والدین کے گھر واپس آگئی تھیں اور اپنے والد اور بڑے بھائی کے ساتھ رہنے لگیں۔ چنئی میں رہنے والی ان کی شادی شدہ بڑی بہن اب بچے کی دیکھ بھال میں ارونا کی مدد کرتی ہیں، اور ارونا اپنی بیماری کو دوائیوں کا انتظام کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی بہتر صحت کے لیے شانتی اکّا کی مرہون منت ہیں۔

Shanthi akka sitting outside her home in Kondangi. With her earnings from doing health work in the community, she was able to build a small one-room house. She was the only person in her family with a steady income until recently
PHOTO • M. Palani Kumar

شانتی اَکّا کونڈنگی میں اپنے گھر کے باہر بیٹھی ہیں۔ کمیونٹی میں صحت کے کام سے حاصل ہونے والی اپنی آمدنی سے انہوں نے ایک کمرے کا چھوٹا سا گھر بنایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک مستقل آمدنی حاصل کرنے والی وہ اپنے کنبے کی واحد فرد تھیں

A list of villages in Tamil Nadu's Chengalpattu taluk that Shanthi would visit to identify people suffering from schizophrenia
PHOTO • M. Palani Kumar
A list of villages in Tamil Nadu's Chengalpattu taluk that Shanthi would visit to identify people suffering from schizophrenia
PHOTO • M. Palani Kumar

تمل ناڈو کے چینگل پٹو تعلقہ کے گاؤوں کی فہرست جہاں شانتی شیزوفرینیا سے متاثرہ افراد کی شناخت کے لیے جایا کرتی تھیں

*****

ہاتھ میں لنچ باکس لیے شانتی روزانہ صبح ۸ بجے چینگل پٹو تعلقہ میں سروے کرنے کے لیے گاؤوں اور بستیوں کی فہرست لے کر گھر سے نکلتی تھیں۔ وہ تقریباً ایک گھنٹہ پیدل چل کر تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور مدورانتکم کے بس اسٹینڈ تک پہنچتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ وہ مقام ہے جہاں سے ہمیں دوسرے گاؤوں تک جانے کے لیے سواریاں ملتی ہیں۔‘‘

ان کا کام پورے تعلقہ میں گھومنا، دماغی مریضوں کی شناخت کرنا اور طبی نگہداشت تک رسائی حاصل کرنے میں ان کی مدد کرنا تھا۔

شانتی یاد کرتی ہیں، ’’ہم پہلے ان گاؤوں کا دورہ کرتے تھے جہاں تک پہنچنا آسان تھا اور بعد میں دور افتادہ مقامات پر جانے لگے۔ ان علاقوں کے لیے بسیں صرف مخصوص اوقات میں ملتی تھیں۔ کبھی کبھی ہم صبح آٹھ بجے سے دوپہر یا یہاں تک کہ ایک بجے تک بس اسٹینڈ پر انتظار کرتے تھے۔‘‘

شانتی پورے مہینہ کام کرتی تھیں۔ صرف اتوار کی چھٹی ہوتی تھی۔ بطور کمیونٹی ہیلتھ ورکر تین دہائیوں تک ان کے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اگرچہ ان کا کام نظر نہیں آتا، لیکن اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ ذہنی عارضے ایک اندازے کے مطابق ہندوستان کی ۶ء۱۰ فیصد بالغ آبادی کو متاثر کرتے ہیں، یہاں ۷ء۱۳ فیصد لوگ اپنی زندگی کے دوران کسی نہ کسی وقت ذہنی بیماری کا سامنا کرتے ہیں۔ لیکن علاج کا فرق ۸۳ فیصد ہے۔ شیزوفرینیا سے متاثر ہونے والے کم از کم ۶۰ فیصد افراد کو ضروری نگہداشت نہیں ملتی ہے۔

کمیونٹی ہیلتھ ورکر کے طور پر شانتی کا سفر ۱۹۸۶ میں شروع ہوا تھا۔ یہ ایسا وقت تھا جب ہندوستان میں ذہنی امراض کی نگہداشت کے لیے ماہرین کی کمی تھی۔ جو چند تربیت یافتہ ماہرین تھے وہ شہروں تک محدود تھے۔ دیہی علاقوں میں شاید ہی کوئی ماہر موجود ہوتا تھا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ۱۹۸۲ میں نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام (این ایم ایچ پی) کا قیام عمل میں آیا۔ اس پروگرام کا مقصد سب کے لیے، خاص طور پر انتہائی کمزور اور پسماندہ افراد کے لیے، ’’کم سے کم ذہنی صحت کی نگہداشت کی دستیابی اور رسائی‘‘ کو یقینی بنانا تھا۔

سال ۱۹۸۶ میں شانتی نے ایک سماجی کارکن کے طور پر ریڈ کراس میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے بعد انہوں نے چینگل پٹو کے دور افتادہ علاقوں کا دورہ کیا، جسمانی طور پر معذور افراد کی شناخت کی اور تنظیم کو ان کی فوری ضروریات سے آگاہ کیا۔

A photograph from of a young Shanthi akka (wearing a white saree) performing Villu Paatu, a traditional form of musical storytelling, organised by Schizophrenia Research Foundation. She worked with SCARF for 30 years.
PHOTO • M. Palani Kumar
In the late 1980s in Chengalpattu , SCARF hosted performances to create awareness about mental health
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: شیزوفرینیا ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منظوم کہانی سنانے کے ایک روایتی فن، ولو پاتو پرفارم کرتے ہوئے نوجوان شانتی اَکّا (سفید ساڑی پہنے ہوئے) کی تصویر۔ انہوں نے ۳۰ سال تک اسکارف کے ساتھ کام کیا۔ دائیں: چینگل پٹو میں ۱۹۸۰ کی دہائی کے آخر میں اسکارف نے دماغی صحت سے متعلق بیداری پیدا کرنے کے لیے کہانی کی پیشکش کا انعقاد کیا

جب اسکارف نے ۱۹۸۷ میں شانتی سے رابطہ کیا تو یہ تنظیم این ایم ایچ پی کے تحت کانچی پورم ضلع کے تیروپورور بلاک میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی بازآبادکاری کے لیے پروگرام چلا رہی تھی۔ اور دیہی تمل ناڈو میں کمیونٹی پر مبنی رضاکاروں کا کیڈر تیار کرنے کے لیے تربیتی پروگراموں کا اہتمام کر رہی تھی۔ اسکارف سے ۱۹۸۷ سے وابستہ تنظیم کی ڈائرکٹر ڈاکٹر آر پدماوتی بتاتی ہیں، ’’اسکول سطح کی تعلیم مکمل کرنے والے کمیونٹی کے لوگوں کو اس میں شامل کیا گیا تھا اور ذہنی عارضے میں مبتلا افراد کو پہچاننے اور ان کی شناخت کرنے اور انہیں ہسپتالوں میں ریفر کرنے کی تربیت فراہم کی گئی تھی۔‘‘

ان کیمپوں میں شانتی نے مختلف دماغی عارضوں سے متعلق جانکاری حاصل کی اور انہیں پہچاننے کا طریقہ سیکھا۔ انہوں نے ذہنی امراض میں مبتلا افراد کو علاج کے لیے ترغیب دینے کا ہنر بھی سیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی ابتدائی تنخواہ ۲۵ روپے ماہانہ تھی۔ ان کو ذہنی طور پر بیمار لوگوں کی تلاش کرنے اور انہیں میڈیکل کیمپوں تک لانے کا کام دیا گیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’مجھے اور ایک اور شخص کو تین پنچایتوں کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔  ہر پنچایت میں تقریباً ۲ سے ۴ گاؤوں ہوتے تھے۔‘‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ سال ۲۰۲۲ میں جب وہ اسکارف میں اپنی ڈیوٹی سے سبکدوش ہوئیں، تو ماہانہ ۱۰ ہزار روپے (پروویڈنٹ فنڈ اور انشورنس کی کٹوتیوں کے بعد) حاصل کر رہی تھیں۔

ان کے اس کام نے انہیں آمدنی کا ایک مستحکم ذریعہ فراہم کیا تھا، جو زندگی کی ہنگامہ خیزیوں میں ان کا سہارا رہا۔ شراب نوشی کی علت میں گرفتار ان کے شوہر کنبے کی کفالت میں بمشکل کوئی حصہ داری نبھاتے تھے۔ شانتی کے ۳۷ سالہ بیٹے الیکٹریشن کا کام کرتے ہیں اور تقریباً ۷۰۰ روپے یومیہ کما لیتے ہیں۔ لیکن ان کی آمدنی مستقل نہیں ہے۔ انہیں مہینے میں صرف ۱۰ دن کام ملتا ہے۔ یہ آمدنی ان کی بیوی اور بیٹی کی کفالت کے لیے بھی ناکافی ہے۔ شانتی کی ماں بھی اب ان کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ سال ۲۰۲۲ میں اسکارف کا شیزوفرینیا پروگرام ختم ہونے کے بعد، شانتی نے تنجاور کی گڑیا بنانا شروع کیا۔ ۵۰ عدد گڑیا بنا کر انہیں تقریباً ۳۰۰۰ روپے کی آمدنی ہو جاتی ہے۔

کمیونٹی میں ۳۰ سال تک کام کرنے کے بعد بھی شانتی نہیں تھکی ہیں۔ این جی او میں اپنے پچھلے پانچ سالوں میں انہوں نے چِینگلٹّو کے کم از کم ۱۸۰ گاؤوں اور بستیوں کا دورہ کیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں بوڑھی ہو گئی تھی، لیکن میں نے یہ کام جاری رکھا۔ اگرچہ مجھے بہت زیادہ پیسے نہیں ملتے تھے، لیکن میں نے جو کچھ کمایا اس سے اپنا کام چلایا۔ مجھے ذہنی اطمینان حاصل ہے کہ مجھے عزت ملی ہے۔‘‘

*****

سیلوی ای (۴۹) شیزوفرینیا کے مریضوں کی تلاش میں شانتی کے ساتھ چینگل پٹو کے علاقے کا دورہ کرتی تھیں۔ سال ۲۰۱۷ سے ۲۰۲۲ کے دوران  سیلوی نے اُتِیرامیرور، کَٹن کولتّور اور مَدورنتکم پنچایت کے ۱۱۸ گاؤوں کا سفر کیا اور ۵۰۰ سے زیادہ افراد کو طبی نگہداشت حاصل کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے اسکارف میں ۲۵ سال سے زیادہ عرصے تک کام کیا۔ اب وہ ڈیمنشیا کے مریضوں کی پہچان کرنے والے ایک دوسرے پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔

سیلوی کی پیدائش چینگل پٹو کے سِیمبکم گاؤں میں ہوئی تھی۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کمیونٹی ہیلتھ ورکر کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ سینگونتر برادری سے تعلق رکھتی ہیں جن کا پیشہ بنائی کرنا ہے۔ اس برادری کو تمل ناڈو میں دیگر پسماندہ طبقات میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں دسویں کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھ سکی۔ کالج جانے کے لیے مجھے تیروپورور تک سفر کرنا پڑتا جو میرے گھر سے آٹھ کلومیٹر کی دوری پر واقع تھا۔ میں پڑھائی جاری رکھنا چاہتی تھی، لیکن دوری کی وجہ سے میرے والدین نے مجھے اجازت نہیں دی۔‘‘

Selvi E. in her half-constructed house in Sembakkam village. She has travelled all over Chengalpattu taluk for more than 25 years, often with Shanthi, to help mentally ill people
PHOTO • M. Palani Kumar

سیمبکم گاؤں میں اپنے نیم تعمیرشدہ مکان میں سیلوی ای۔ دماغی مریضوں کی مدد کے لیے ۲۵ سال سے زیادہ عرصے تک انہوں نے چینگل پٹو تعلقہ کا دورہ کیا ہے، اکثر ان کے ساتھ شانتی بھی ہوتی تھیں

۲۶ سال کی عمر میں اپنی شادی کے بعد سیلوی اپنے کنبے کی واحد کمانے والی فرد بن گئیں تھیں۔ ایک الیکٹریشین کے طور پر ان کے شوہر کی آمدنی غیرمستحکم تھی۔ لہٰذا اپنی معمولی آمدنی سے انہوں گھریلو ضروریات کے ساتھ ساتھ اپنے دو بیٹوں کی تعلیم کے اخراجات کو بھی پورا کیا۔ ان کا بڑا بیٹا ۲۲ سال کا ہے اور چھ ماہ پہلے اس نے کمپوٹر سائنس میں ایم ایس سی کیا ہے۔ چھوٹا بیٹا ۲۰ سال کا ہے اور وہ چینگل پٹو کے گورمنٹ کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔

گاؤں گاؤں جا کر شیزوفرینیا کے مریضوں کو علاج کے لیے ترغیب دینے سے پہلے سیلوی مریضوں کی کونسلنگ کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے یہ کام تین سال تک ۱۰ مریضوں کے لیے کیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’مجھے ہفتے میں ایک بار ان سے ملنا پڑتا تھا۔ ان سیشنز کے دوران، ہم مریضوں اور ان کے خاندان کے افراد سے علاج، فالو اپ، خوراک اور حفظان صحت کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے تھے۔‘‘

شروع میں سیلوی کو کمیونٹی کی طرف سے کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ کوئی مسئلہ ہے۔ ہم انہیں بتاتے کہ یہ ایک بیماری ہے اور اس کا علاج ممکن ہے۔ مریضوں کے لواحقین ناراض ہو جاتے۔ کچھ لوگوں نے بیمار رشتہ داروں کو اسپتالوں کی بجائے مذہبی مقامات پر لے جانے کو ترجیح دی۔ انہیں میڈیکل کیمپ میں آنے پر راضی کرنے کے لیے کافی مشقت کرنی پڑی اور ان کے گھروں کے کئی دورے کرنے پڑے۔ جب مریض کو سفر کرنے میں دشواری محسوس ہوتی تو ڈاکٹر ان کے گھر جاتے تھے۔‘‘

سیلوی نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے خود اپنی حکمت عملی تیار کی۔ وہ گاؤں کے ہر گھر میں جاتیں، چائے فروشوں کے اسٹالوں پر جمع لوگوں سے باتیں کرتیں، اور اسکول کے اساتذہ اور پنچایت لیڈران سے مخاطب ہوتیں۔ یہ لوگ ان کے اہم رابطہ کار بن گئے۔ شیزوفرینیا کی علامات کو بیان کرتے ہوتے سیلوی بتاتی تھیں کہ طبی نگہداشت سے کس طرح ان کی مدد کی جا سکتی ہے، اور ان سے ان کے گاؤں میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے گزارش کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’کچھ لوگ جھجکتے تھے، لیکن کچھ لوگوں نے ہمیں بتایا یا ہمیں مریض کے گھر کی طرف اشارہ کیا۔ بہت سے لوگوں کو مخصوص مسائل کا علم نہیں ہوتا۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک شخص کی حالت مشکوک ہے، یا کچھ لوگ لمبے عرصے تک نیند نہ آنے کے شکایت کرتے ہیں۔‘‘

گوت بیاہ (برادری میں شادی) پر سختی سے عمل کرنے والی ایک بند برادری (جہاں خون کے رشتے داروں کے بیچ شادی عام ہو) میں پرورش پانے والی سیلوی نے کئی بچوں کو دماغی معذوری کے ساتھ جنم لیتے ہوتے دیکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہیں انہوں نے ذہنی بیماری کی علامات اور دماغی معذوری کے درمیان فرق کرنا سیکھایا ہے، جو کہ اس کے کام کے لیے ایک اہم ضرورت ہے۔

سیلوی کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانے کی تھی کہ دوائیں مریض کی دہلیز پر پہنچ جائیں۔ ہندوستان میں ذہنی عارضے میں مبتلا افراد کی اکثریت صحت کی خدمات اور ادویات کے تقریباً تمام اخراجات خود ہی برداشت کرتی ہے۔ ۴۰ فیصد تک مریض قومی دماغی صحت پروگرام کے تحت فراہم کی جانے والی خدمات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ۱۰ کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کرتے ہیں۔ دورافتادہ گاؤوں میں لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات تک باقاعدگی سے رسائی حاصل کرنے میں اکثر مشکل پیش آتی ہے۔ ایک اور رکاوٹ مریضوں سے منسلک بدنامی کا ڈر ہے، جو اپنی بیماری کی علامات کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں اور معاشرتی توقعات کو پورا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

Selvi with a 28-year-old schizophrenia patient in Sembakkam whom she had counselled for treatment. Due to fear of ostracisation, this patient’s family had refused to continue medical care for her.
PHOTO • M. Palani Kumar
Another patient whom Selvi helped
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: سیمبکم میں شیزوفرینیا کی ۲۸ سالہ مریض کے ساتھ سیلوی۔ ان کے علاج کے لیے سیلوی نے کونسلنگ کی تھی۔ برادری سے باہر کیے جانے کے خوف کی وجہ سے مریضہ کے اہل خانہ نے ان کی طبی نگہداشت جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ دائیں: ایک اور مریض جن کی سیلوی نے مدد کی

سیلوی کہتی ہیں، ’’ان دنوں ٹی وی دیکھنے کی وجہ سے کچھ بہتری آئی ہے۔ لوگ اتنے خوفزدہ نہیں ہیں۔ بی پی، شوگر [بلڈ پریشر کے مسائل اور ذیابیطس] کا علاج کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود جب ہم ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے گھر والوں تک پہنچتے ہیں، تو وہ غصے کا اظہار کرتے ہیں اور ہم سے لڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تم یہاں کیوں آ رہے ہو… تمہیں کس نے بتایا کہ یہاں کوئی پاگل رہتا ہے؟‘‘

*****

چینگل پٹو تعلقہ کے منمتی گاؤں میں ۴۴ سالہ کمیونٹی ہیلتھ ورکر ڈی لِلی پُشپم، دماغی صحت کی نگہداشت کے حوالے سے دیہی علاقوں میں غلط فہمیوں کے بارے میں سیلوی سے متفق ہیں۔ للی کہتی ہیں، ’’یہاں بہت سارے شکوک و شبہات ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ماہر نفںسیات مریضوں کو اغوا کر کے ان پر تشدد کرے گا۔ اگر وہ علاج کے لیے آتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’ہم انہیں اپنا شناختی کارڈ دکھاتے ہیں، بتاتے ہیں کہ ہم ہسپتال سے آئے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں سمجھانے میں ہمیں کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔‘‘

لِلی کی پرورش منمتی کی دلت کالونی میں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ سے فیلڈ میں ہونے والے امتیازی سلوک سے وہ آگاہ ہیں۔ بعض اوقات ان کی ذات انہیں مشکل حالت میں ڈال دیتی ہے۔ اس لیے جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنے گھر کی جگہ کا انکشاف نہیں کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر میں نے ایسا کیا تو وہ میری ذات کو پہچان لیں گے اور مجھے ڈر ہے کہ لوگ میرے ساتھ الگ طرح کا سلوک کریں گے۔‘‘ اگرچہ للی ایک دلت عیسائی ہیں، لیکن وہ صرف عیسائی کے طور پر اپنی شناخت ظاہر کرتی ہیں۔

کمیونٹی ہلتھ ورکرز کے ساتھ الگ الگ گاؤوں میں الگ الگ برتاؤ ہوتا ہے، للی وضاحت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’کچھ مقامات پر جہاں اونچی ذاتوں کے امیر لوگ آباد ہیں وہاں ہمیں پانی کے لیے بھی نہیں پوچھا جاتا ہے۔‘‘ کبھی ہم اتنے تھکے ہوتے ہیں کہ کہیں بیٹھ کر کچھ کھانا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اس کی بھی اجازت نہیں ملتی۔ ہمیں بہت برا لگتا ہے، بہت ہی برا۔ اس کے بعد ہمیں ۳ سے ۴ کلومیٹر پیدل چل کر کسی مقام کی تلاش کرنی ہوتی ہے، جہاں ہم بیٹھ کر کھانا کھا سکیں۔ لیکن کچھ دوسرے مقامات پر لوگ ہمیں پینے کے لیے پانی دیتے ہیں اور جب ہم کھانے کے لیے بیٹھتے ہیں تو وہ ہم سے پوچھتے ہیں ہمیں کچھ اور تو نہیں چاہیے۔‘‘

للی جب ۱۲ سال کی تھیں، تو ان کی شادی کزن کے ساتھ کر دی گئی تھی، جو ان سے ۱۶ سال بڑے تھے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم پانچ بہنیں تھیں اور میں سب سے بڑی تھی۔‘‘ کنبے کے پاس تین سینٹ زمین تھی، جس پر انہوں نے ایک کچا گھر بنایا تھا۔ ’’میرے والد کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ان کی جائیداد کی دیکھ بھال کرے اور زمین پر کھیتی میں ان کی مدد کرے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی بڑی بہن کے بیٹے کے ساتھ میری شادی کر دی۔‘‘ یہ شادی کامیاب نہیں رہی۔ ان کے شوہر وفادار نہیں تھے اور مہینوں تک ان سے نہیں ملتے تھے۔ اور ملتے تھے تو ان کے ساتھ مار پیٹ کرتے تھے۔ سال ۲۰۱۴ میں گردے کے کینسر کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔ اب ۱۲ اور ۱۴ سال کے دو بچوں کی پرورش کی ذمہ داری للی کے سر پر ہے۔

سال ۲۰۰۶ میں اسکارف کی جانب سے کمیونٹی ہیلتھ ورکر کی نوکری کی پیشکش سے قبل للی سلائی کا کام کیا کرتی تھیں۔ اس سے ان کی ہفتہ وار آمدنی ۴۵۰ سے ۵۰۰ روپے ہوا کرتی تھی، لیکن اس کا انحصار بھی گاہکوں کی تعداد پر ہوا کرتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ہیلتھ ورکر اس لیے بنیں کیونکہ اس میں تنخواہ اچھی تھی۔ کووڈ۔۱۹ نے ان کی ۱۰ ہزار روپے کی ماہانہ آمدنی کو متاثر کیا تھا۔ وبائی مرض سے پہلے ان کے بس کا کرایہ اور فون بل واپس مل جایا کرتے تھے۔ ’’لیکن کورونا کی وجہ سے، مجھے دو سال تک اپنے فون کے بل اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات کو ۱۰ ہزار روپے میں ہی سنبھالنا پڑا۔ یہ مشکل دور تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

Lili Pushpam in her rented house in the Dalit colony in Manamathy village. A health worker, she says it is a difficult task to allay misconceptions about mental health care in rural areas. Lili is herself struggling to get the widow pension she is entitled to receive
PHOTO • M. Palani Kumar

منمتی گاؤں کی دلت کالونی میں اپنے کرایے کے مکان میں للی پُشپم۔ وہ ایک ہیلتھ ورکر ہیں، اور کہتی ہیں کہ دیہی علاقوں میں ذہنی صحت کی نگہداشت کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ ایک مشکل کام ہے۔ للی خود بیوہ پنشن کی حقدار ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں

اب چونکہ این ایم ایچ پی کے تحت اسکارف کا کمیونٹی پروجیکٹ ختم ہو گیا ہے، لہٰذا للی کو ڈیمنشیا کے شکار لوگوں کے درمیان کام کرنے کے لیے تنظیم کے ایک دوسرے پروجیکٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ کام مارچ میں شروع ہوا تھا، جہاں وہ ہفتے میں ایک بار جاتی ہیں۔ لیکن، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ شیزوفرینیا کے مریضوں کا علاج جاری رہے، وہ انہیں چینگل پٹو، کوولم اور سیمبکم کے سرکاری ہسپتالوں میں لے جا رہی ہیں۔

شانتی، سیلوی اور للی جیسی خواتین، جو کمیونٹی کی صحت کے انتظام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، ۴-۵ سالہ کنٹریکٹ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اسکارف جیسی این جی اوز مخصوص مدت کے منصوبوں کے لیے حاصل ہونے والے فنڈز کی بنیاد پر ان جیسے کارکنوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ ’’ہم ریاستی سطح پر ایک نظام قائم کرنے کے لیے حکومت سے بات کر رہے ہیں،‘‘ اسکارف کی پدماوتی کہتی ہیں، جن کا خیال ہے کہ اس سے کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے کام کو باقاعدہ بنانے میں مدد ملے گی۔

اگر ہندوستان میں ذہنی صحت کی نگہداشت کے لیے بجٹ کی رقم اتنی چھوٹی نہیں ہوتی، تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔ سال ۲۰۲۳-۲۴ میں صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کا دماغی صحت کے لیے بجٹ کا تخمینہ ۹۱۹ کروڑ روپے ہے، جو مرکزی حکومت کے صحت کے کل بجٹ کا صرف ۱ فیصد ہے۔ ۷۲۱ کروڑ روپے پر مشتمل اس بجٹ کا ایک بڑا حصہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (نمہنس)، بنگلور کے لیے مختص ہے۔ باقی لوک پریہ گوپی ناتھ ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ، تیز پور (۶۴ کروڑ روپے) اور نیشنل ٹیلی-مینٹل ہیلتھ پروگرام (۱۳۴ کروڑ روپے) کو جائیں گے۔ مزید برآں، صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کا قومی دماغی صحت پروگرام، جو کہ بنیادی ڈھانچے کے فروغ اور عملے کی تیاری پر نظر رکھتا ہے، کو اس سال قومی صحت مشن کی ’ثانوی سرگرمیوں‘ میں ضم کر لیا گیا ہے۔ لہذا، ثانوی سطح کی ذہنی نگہداشت کے لیے مختص بجٹ کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

دریں اثنا، منمتی میں لِلی پُشپم کی سماجی تحفظ کے فوائد (جن کی وہ حقدار ہیں) تک رسائی کے لیے اب بھی جدوجہد جاری ہے۔ ’’اگر مجھے بیوہ پنشن کے لیے درخواست دینی ہے تو مجھے رشوت دینی ہوگی۔ میرے پاس انہیں دینے کے لیے ۵۰۰ یا ۱۰۰۰ روپے بھی نہیں ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں انجکشن دے سکتی ہوں، گولیاں دے سکتی ہوں اور مریضوں کی کونسلنگ اور فالو اپ کر سکتی ہوں۔ لیکن اس تجربے کو اسکارف کے علاوہ کہیں بھی مفید نہیں سمجھا جاتا ہے۔ میری زندگی کا ہر دن آنسوؤں میں ڈوبا ہوا ہے۔ میں اداس ہوں کیونکہ میری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘

فیچر تصویر: شانتی سیشا ایک نوجوان عورت کے طور پر

مترجم: شفیق عالم

S. Senthalir

S. Senthalir is Senior Editor at People's Archive of Rural India and a 2020 PARI Fellow. She reports on the intersection of gender, caste and labour. Senthalir is a 2023 fellow of the Chevening South Asia Journalism Programme at University of Westminster.

Other stories by S. Senthalir
Photographs : M. Palani Kumar

M. Palani Kumar is Staff Photographer at People's Archive of Rural India. He is interested in documenting the lives of working-class women and marginalised people. Palani has received the Amplify grant in 2021, and Samyak Drishti and Photo South Asia Grant in 2020. He received the first Dayanita Singh-PARI Documentary Photography Award in 2022. Palani was also the cinematographer of ‘Kakoos' (Toilet), a Tamil-language documentary exposing the practice of manual scavenging in Tamil Nadu.

Other stories by M. Palani Kumar
Editor : Vinutha Mallya

Vinutha Mallya is a journalist and editor. She was formerly Editorial Chief at People's Archive of Rural India.

Other stories by Vinutha Mallya
Photo Editor : Riya Behl

Riya Behl is Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI). As a multimedia journalist, she writes on gender and education. Riya also works closely with students who report for PARI, and with educators to bring PARI stories into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam