/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/birendra_samantray.jpg


جون ۲۰۰۵ میں، اڑیسہ حکومت نے ملک کی سب سے بڑی غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری ڈیل پر دستخط کیا، ایک بار پھر جنوبی کوریائی اسٹیل بنانے والی کمپنی ’پوسکو‘ کے ساتھ۔ یہ ڈیل ۱۲ ارب امریکی ڈالر (تقریباً ۶۵ ہزار ۸۵۶ کروڑ روپے) کی تھی، جس کے تحت معدنیات سے مالامال ریاست میں پردیپ کے قریب پلانٹ لگایا جانا ہے۔ اس پروجیکٹ کے لیے ۴۰۰۴ ایکڑ زمین درکار تھی، لہٰذا ذریعہ معاش کے طور پر زراعت اور ماہی گیری پر منحصر آٹھ گاؤوں کو اس کے لیے زمین چھوڑنی تھی، اس میں سے ۲۹۵۸ ایکڑ زمین جنگلاتی زمین ہے۔ اس اسٹیل مل کے ساتھ ہی کیپٹو پورٹ، پاور پلانٹ اور ٹاؤن شپ بھی بنائے جائیں گے۔

اس ڈیل پر دستخط ہوئے تقریباً آٹھ سال ہو چکے ہیں، لیکن حکام اور گاؤوں والوں کے درمیان اس کو لے کر لڑائی اب بھی جاری ہے، ساتھ ہی اس کی وجہ سے وہاں کا سماج بھی آپس میں تقسیم ہو چکا ہے۔

ڈھنکیا گاؤں احتجاج کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس نے عدم تشدد پر مبنی احتجاج کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے، اور اس نے مجوزہ صنعت کے لیے اپنے پان کے نفع بخش باغوں، دھان کے کھیتوں، کمیونٹی کی جنگلاتی زمینوں اور مکانوں کو خالی کرنے سے منع کر دیا ہے۔

مقامی باشندوں نے اپنا منصوبہ بدلنے سے انکار کر دیا، اپنے گاؤں کو چاروں طرف سے گھیر دیا، پروجیکٹ کی متعدد خلاف ورزوں سے متعلق عدالتوں میں عرضیاں دائر کیں، اور بارہا یہ اپیل کی کہ انھیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے۔

ریاستی حکام نے پولس دستہ کی ظلم و جبر کا سہارا لیا، پولس کی پرتشدد کارروائیوں کے ذریعہ پان کے باغوں کو تباہ کر دیا اور پڑوس کے گاؤوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا، حالیہ ہفتوں میں بھی اس طرح کی ایک بڑی پرتشدد کارروائی ہوئی ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ان کے خلاف ۲۰۰ سے زیادہ کرمنل کیسز بھی دائر کیے گئے ہیں، جس میں ملک سے غداری اور فحاشی کے مقدمات بھی ہیں، جو سینکڑوں گاؤں والوں کو حراست میں لینے اور اس اختلاف کا خاتمہ کرنے کے مقصد سے اٹھایا گیا قدم ہے۔

لیکن ڈھنکیا گاؤں کے لوگ، خاص کر یہاں کی عورتیں کہتی ہیں کہ وہ ہار ماننے والی نہیں ہیں، چاہے ان کا احتجاج ہلاکت خیز ہی کیوں نہ بن جائے۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/ahilyabehera.jpg


اہلیا بہیرا جب یہ کہتی ہیں کہ وہ گاؤں کی زرعی اقتصادیات سے اس لیے جڑی ہوئی ہیں، کیوں کہ یہ ان کے لیے ذریعہ معاش کی سیکورٹی اور خود روزگاری کو یقینی بناتی ہے، جبکہ آس پاس کے علاقے کھانے اور ایندھن سے متعلق مختلف قسم کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، تو وہ سینکڑوں پان باغان کے مالکوں اور کسانوں کے خیالات کو دوہرا رہی ہوتی ہیں۔ ’’یہ ریتیلی مٹی ہمارے پان کے باغوں کے لیے اہم ہے۔ اگر ہمیں کہیں اور جانا پڑا، تو ہم اسے کیسے اُگائیں گے۔ یہ باغات ہمیں روزی روٹی مہیا کرا رہے ہیں اور یہ گاؤں کی اگلی نسلوں کو بھی یہ تمام چیزیں مہیا کرائیں گے۔ ہم کسان ہیں، ہم ’پوسکو‘ جیسی کمپنی میں انجینئرنگ کی نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ ہم وہاں کم تنخواہ پانے والے مزدور بن کر رہ جائیں گے یا پھر ہمیں یکمشت معاوضہ دے دیا جائے گا۔ اس کے بعد کیا؟‘‘


uploads/Articles/Chitrangada/birendra_samantray.jpg


گاؤں کے پجاری بیرندر سامنترے اپنی پوتی ہری پریا کے ساتھ اپنے مسور کے کھیت میں چہل قدمی کر رہے ہیں۔ مارچ ۲۰۱۲ میں بیرندر کے ذریعہ دائر کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ملک میں ماحولیات کی سب سے بڑی عدالت نیشنل گرین ٹریبونل نے سرکار کے ذریعہ ’پوسکو‘ کو دی گئی ماحولیاتی کلیئرنس کو ردّ کر دیا تھا، اور اس پر نظرثانی کا حکم دیا تھا، جس کی جانچ ابھی سامنے نہیں آئی ہے۔ ’’ردّ کرنے کے وہ حکم آخرکار ہمارے لیے کچھ خوشیاں لے کر آیا،‘‘ سامنترے کہتے ہیں۔ ’’لیکن ہماری امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا، جب ہم نے حکام کو دیکھا کہ وہ اس پروجیکٹ کے لیے زمین حاصل کرنے واپس لوٹے ہیں، اس کے باوجود کہ ان کے پاس گرین کلیئرنس نہیں ہے اور یہ بھی وضاحت کے ساتھ طے نہیں کیا گیا ہے کہ وہ خام لوہا اور پانی کہاں سے حاصل کرے گا۔‘‘


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/hemlata_sahu.jpg


غمزدہ ہیم لتا ساہو اپنے ۵۲ سالہ بیٹے نرہری ساہو کا ووٹر آئی ڈی دکھا رہی ہیں، جو ۲ مارچ کو گاؤں میں دو دیگر لوگوں کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے شام کے وقت بم دھماکہ میں ہلاک ہو گیا تھا۔ ہیم لتا کا الزام ہے کہ ان کے بیٹے پر اس لیے حملہ کیا گیا، کیوں کہ وہ احتجاجی تحریک کی قیادت کر رہا تھا، اور بم دھماکہ کی جانچ مقامی حکام نے ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کی۔ ’’متعدد فون کال کے باوجود پولس اگلی صبح سے پہلے موقع واردات پر نہیں پہنچی۔ جب میری بہو ایف آئی آر لکھوانے گئی، تو پولس اسٹیشن نے ہمیں وہاں سے بھگا دیا اور ہماری شکایت درج نہیں کی۔ انھوں نے اب تک اس دھماکہ میں واحد زندہ بچ جانے والے شخص (جو اب اسپتال میں ہے اور تیزی سے اس کے زخم بھرنے لگے ہیں) کا بیان بھی نہیں لیا ہے۔ میرے بیٹے کو اس پروجیکٹ کی مخالفت کا خمیازہ اپنی جان دے کر اٹھانا پرا۔‘‘


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/lata_parida.jpg


لتا پریدا، جو ایک اَن پڑھ، جھگڑالو دادی اور ۵۲ سالہ ایک پان اُگانے والی کسان ہیں، ان کے خلاف درجنوں کرمنل کیسز درج ہیں۔ حال ہی میں پولس نے ان پر فحاشی کا الزام بھی لگایا ہے کہ انھوں نے ۷ مارچ کو تحویل اراضی کے خلاف نیم برہنہ حالت میں احتجاج کیا تھا۔ اپنی سوجی ہوئی ٹانگیں دکھاتے ہوئے لتا نے بتایا، ’’اب ہم ٹوٹنے کی کگار پر ہیں۔ یا تو کمپنی واپس جائے گی یا پھر ہماری موت ہوگی۔ کیا آپ نے کوئی ایسا ملک دیکھا ہے، جہاں لوگ سات برسوں سے احتجاج کر رہے ہوں، ان پر چوبیسوں گھنٹے گرفتار، زد و کوب اور بے گھر کیے جانے کا خطرہ لاحق ہو،  پھر بھی انھیں کوئی راحت نہ پہنچائی جائے؟‘‘


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/shanti_das.jpg


شانتی داس کے خلاف ۳۰ سے زیادہ معاملے درج ہیں، لیکن وہ ایک ٹوٹی ہوئی انگلی دکھاتی ہیں، جو لاٹھی چارج کےد وران زخمی ہو گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اس بات کا کافی غم ہے کہ گاؤں والوں کی طرف سے اتنی زبردست مخالفت کے باوجود حکومت زمینوں کو اپنے قبضے میں کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ’’کیا ہم خاموش تماشائی بن کر اپنے باغوں کو ٹوٹتے ہوئے اور ذریعہ معاش کو برباد ہوتے ہوئے یوں ہی دیکھتے رہیں؟‘‘


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/manorama_khatua.jpg


۲۹ سالہ سابق اسکول ٹیچر، منورما کھٹوا ’پوسکو‘ کے خلاف چلائی جانے والے عورتوں کی تحریک کی سربراہ ہیں۔ ان کے خلاف ۲۷ کرمنل کیسز درج ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ پولس کے ذریعہ گرفتار کیے جانے اور جیل میں ڈالے جانے کے خوف کی وجہ سے وہ پچھلے چھ سالوں میں ایک بار بھی گاؤں سے باہر نہیں نکلی ہیں۔ ’’میں جب اپنی آنکھیں موندتی ہوں، تو پولس کی لاٹھیاں اپنے جسم پر برستے ہوئے اور اپنی آنکھوں میں مرچ کا دھواں (آنسو گیس) محسوس کرتی ہوں۔ لیکن ہمارا عزم پختہ ہے، جسے توڑا نہیں جا سکتا۔‘‘

یہ اسٹوری بنیادی طور پر ’منٹ‘ میں ۵ اپریل، ۲۰۱۳ کو شائع ہوئی تھی، جس کا مطالعہ یہاں کیا جا سکتا ہے۔

Chitrangada Choudhury

Chitrangada Choudhury is an independent journalist.

Other stories by Chitrangada Choudhury
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique