وہ لڑکا اسٹیج پر چڑھ گیا، جہاں رقص کرنے والی لڑکیاں ناچ رہی تھیں اور اس نے ۱۹ سال کی مسکان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’ابھیئے گولی مار دیں گے، تو تُرت ناچنے لگے گی،‘‘ اس نے کہا۔

ناظرین کے مجمع سے اسٹیج پر چڑھا وہ نوجوان جب مسکان کو دھمکیاں دے رہا تھا، تب ناچ دیکھنے آئی بھیڑ تالیاں اور سیٹیاں بجا کر اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔ لڑکی کا قصور بس اتنا تھا کہ اس نے ایک بھدّے بھوجپوری گانے پر ناچنے سے منع کر دیا تھا۔ وہ بہار کے مشرقی چمپارن ضلع میں ایک ہزار سے بھی زیادہ مرد ناظرین کی طعنے مارتی اور بھدے اشارے کرتی بھیڑ کے سامنے خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی۔

رونالی آرکیسٹرا گروپ کی فنکار مُسکان، ان سات رقص کرنے والی لڑکیوں میں شامل تھیں جو اُس ناچ گانے کے شو میں، جسے مقامی زبان میں ’’آرکیسٹرا‘‘ کہا جاتا ہے، اپنا ڈانس پیش کر رہی تھیں۔ اس شو کا اہتمام چریّا بلاک میں درگا پوجا کا تہوار منانے کے لیے کیا گیا تھا۔

’’ہم ناچنے والیوں کے لیے یہ دھمکیاں عام بات ہیں،‘‘ مسکان بتاتی ہیں۔ وہ اس قسم کے آرکیسٹرا پروگراموں میں گزشتہ تین سالوں سے ڈانس کر رہی ہیں۔

حالانکہ، جلد ہی دھمکیوں کی آڑ میں ان لڑکیوں کے جسم سے چھیڑ چھاڑ کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ’’کمر پر ہاتھ رکھنا یا بلاؤز میں ہاتھ گھسانے کی کوشش کرنا یہاں مردوں کی روزمرہ کی حرکتیں ہیں،‘‘ رادھا کہتی ہیں، جو خود ایک رقاصہ ہیں۔

Muskan lives in a rented room with her daughter. 'I do not have a permanent home so it does not make sense to buy many things. I want to save money for my daughter instead of spending it on stuff which are not important,' she says, explaining the bed on the floor.
PHOTO • Dipshikha Singh
Muskan lives in a rented room with her daughter. 'I do not have a permanent home so it does not make sense to buy many things. I want to save money for my daughter instead of spending it on stuff which are not important,' she says, explaining the bed on the floor.
PHOTO • Dipshikha Singh

مُسکان اپنی بیٹی کے ساتھ کرایے کے ایک کمرے میں رہتی ہیں۔ ’میرا کوئی مستقل گھر نہیں ہے، لہٰذا میرے لیے بہت سے سامان خریدنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ میں غیر ضروری چیزیں خریدنے کی بجائے اپنی بیٹی کے لیے پیسے بچانا چاہتی ہوں،‘ فرش پر بچھے بستر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں

Muskan started working as a dancer at the Sonepur mela (fair) in Bihar’s Saran district.
PHOTO • Dipshikha Singh

مُسکان نے بہار کے سارن ضلع میں ہر سال لگنے والے سونپور میلہ میں ڈانسر کے طور پر کام کرنا شروع کیا تھا

بہار میں آرکیسٹرا کے پروگراموں کا اہتمام عموماً تہواروں، پرائیویٹ پارٹیوں اور شادی بیاہ جیسے موقعوں پر ہوتا ہے۔ ناچنے والی لڑکیوں کو ان کی پیشکش کے مطابق ۱۵۰۰ سے لے کر ۲۰۰۰ روپے تک ادا کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سب سے اچھی رقاصہ کو بھی اپنی پیشکش کے لیے ۵۰۰۰ روپے سے زیادہ نہیں ملتے۔ پروگراموں کی تعداد بڑھانے کے لیے ان ڈانسروں کو کمیشن دیا جاتا ہے، کیوں کہ وہ اکثر آرکیسٹرا پروگراموں کے ایک سے زیادہ منتظمین کے رابطے میں رہتی ہیں۔

’’ہندوستان اور نیپال کے الگ الگ حصوں سے تقریباً ۲۰۰ لڑکیاں سونپور میلہ کے آرکیسٹرا پروگراموں میں اپنا ڈانس دکھانے آتی ہیں،‘‘ مسکان بتاتی ہیں۔ انہیں بھی سونپور میلہ میں آرکیسٹرا شو کرانے والے ایک منتظم سے ملایا گیا تھا، اور تب سے وہ ایک پیشہ ور رقاصہ کے طور پر اپنا ڈانس پیش کر رہی ہیں۔ بہار کے سارن ضلع میں سونپور میلہ ہر سال لگتا ہے۔

ان پروگراموں میں ڈانس کرنے کے لیے ۱۵ سے ۳۵ سال تک کی نوجوان لڑکیوں کو بطور رقاصہ رکھا جاتا ہے۔ ’’کچھ لڑکیاں اس پیشہ میں آنے کے بعد بھی اپنی فیملی کے رابطہ میں ہیں۔ وہ سال میں ایک یا دو بار اپنے اپنے گھر جاتی ہیں،‘‘ مسکان کہتی ہیں۔ ’’ان کی فیملی والے جانتے ہیں کہ وہ کیا کرتی ہیں،‘‘ وہ تفصیل سے خاندانی بندشوں کے بارے میں بتاتی ہیں، ’’آخرکار ان کو بھی زندہ رہنے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے، اور یہ لڑکیاں ناچ کے اپنے پیسہ کی بدولت ان کا گزارہ کرتی ہیں۔‘‘

ان تمام مشکلوں کے بعد بھی آرکیسٹرا شو میں ناچنے کا کام مسکان کو روزی روٹی دینے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ ایسا وہ خود بھی مانتی ہیں۔ مسکان جب صرف ۱۳ سال کی تھیں، تبھی ان کی شادی کولکاتا کے ایک ۲۹ سالہ آدمی سے کر دی گئی تھی۔ اذیت سے بھری شادی کے تین سال گزرنے کے بعد وہ اپنے ساس سسر کے گھر سے فرار ہو گئیں۔

’’میرے شوہر کو اس بات سے مسئلہ تھا کہ میں نے ایک بیٹی کو جنم دیا ہے اور وہ ہماری بچی کو بیچنا چاہتے تھے،‘‘ بہار آنے والی ایک ٹرین پر اپنے سوار ہونے کے واقعہ کو یاد کرتے ہوئے مسکان بتاتی ہیں۔ اس وقت ان کی بیٹی صرف ایک سال کی تھی۔ پھر انہیں سونپور میلہ میں کام مل گیا۔

Vicky, an organiser of orchestra events, has an office in the market near Gandhi Maidan in Patna where he interacts with clients who wish to hire performers.
PHOTO • Dipshikha Singh
Vicky, an organiser of orchestra events, has an office in the market near Gandhi Maidan in Patna where he interacts with clients who wish to hire performers.
PHOTO • Dipshikha Singh

آرکیسٹرا کا شو کرانے والے وِکّی کا پٹنہ کے گاندھی میدان کے قریب واقع بازار میں اپنا آفس ہے، جہاں وہ ناچنے والی لڑکیوں کو کرایے پر لے جانے کے خواہش مند گاہکوں کے ساتھ سودا کرتے ہیں

It’s difficult for us to even find accommodation', says Muskan who shares a two-bedroom house with six other dancers.
PHOTO • Dipshikha Singh
It’s difficult for us to even find accommodation', says Muskan who shares a two-bedroom house with six other dancers.
PHOTO • Dipshikha Singh

’ہمارے لیے رہن سہن کا انتظام کرنا بھی ایک مشکل کام ہے،‘ مُسکان بتاتی ہیں۔ وہ ابھی دو کمرے کے ایک گھر میں چھ دیگر ہم پیشہ لڑکیوں کے ساتھ رہتی ہیں

آرکیسٹرا میں ناچنے والی لڑکیوں کے ساتھ سماج امتیازی سلوک کرتا ہے، اور انہیں اتنی حقارت بھری نظروں سے دیکھتا ہے کہ اس سے ان کی بنیادی ضرورتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ مسکان بتاتی ہیں، ’’ہمارے لیے رہنے کا کمرہ تلاش کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘‘ مسکان اور ان کی بیٹی پٹنہ کے مضافاتی علاقہ دیگھا میں کرایے کے گھر میں رہتی ہیں۔ دو کمرے کے اس پختہ مکان میں ان کے ساتھ چھ دیگر لڑکیاں بھی رہتی ہیں۔ وہ بھی پیشہ سے ڈانسر ہی ہیں۔ ’’مجھے ان لڑکیوں کے ساتھ یہاں رہنا اچھا لگتا ہے۔ یہ جگہ بہت مہنگی بھی نہیں ہے اور ہم سب اپنا کرایہ اور دوسرے خرچے آپس میں بانٹ لیتے ہیں،‘‘ مسکان بتاتی ہیں۔

ان پریشانیوں اور بھید بھاؤ کے باوجود مسکان کے لیے یہ زندگی اپنے ظالم شوہر کے ساتھ رہنے کی بنسبت زیادہ بہتر ہے۔ ’’یہاں تو صرف چھو کر چھوڑ دیتے ہیں، کم از کم پہلے کی طرح روز رات کو ریپ (عصمت دری) تو نہیں ہوتا!‘‘

آرکیسٹرا کے پروگراموں میں خود بھی چھیڑ خانی کا شکار ہونے کے سبب مسکان نہیں چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹی بڑی ہو کر رقاصہ بنے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹی پڑھے لکھے اور جیسا کہ وہ کہتی ہیں، ’’بہتر زندگی‘‘ گزارے۔ مسکان نے خود پرائمری اسکول کی پڑھائی مکمل کی تھی، لیکن اس کے بعد ان کی شادی کر دی گئی۔

’’ہم میں سے یہاں بہت سی لڑکیوں کے پاس آئی ڈی [شناختی کارڈ] نہیں ہے،‘‘ مسکان بتاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے اسکولوں میں داخلہ دلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ’’میں بتا نہیں سکتی کہ کاغذات کے بغیر میں اسے اسکول کیسے بھیجوں گی۔‘‘ وہ فکرمند لہجے میں کہتی ہیں، ’’ہمیں مدد کی ضرورت ہے، لیکن میں نہیں جانتی کہ ہماری مدد کون کرے گا۔‘‘

Left: Priya who performs a duet dance with her husband in orchestra events travels from Kolkata for a show.
PHOTO • Dipshikha Singh
Right: Manisha gets ready to make an Instagram reel.
PHOTO • Dipshikha Singh

بائیں: پریہ، جو آرکیسٹرا کے پروگراموں میں اپنے شوہر کے ساتھ جگل بندی میں ناچ پیش کرتی ہیں، کولکاتا سے یہاں ایک شو کے لیے آئی ہیں۔ دائیں: منیشا انسٹاگرام ریل بنانے کی تیاری میں ہیں

Left: The orchestra d ancers buy cosmetics and accessories from a woman who comes to their house in the outskirts of the city.
PHOTO • Dipshikha Singh
Right: The Runali Orchestra Group performing in Bihar.
PHOTO • Vicky

بائیں: آرکیسٹرا میں کام کرنے والی لڑکیاں آرائش و زیبائش اور ضرورت کے دوسرے سامان ایک خاتون سے خریدتی ہیں، جو شہر کے باہری علاقے میں بنے ان کے گھر آ کر ان کو یہ چیزیں پہنچا جاتی ہیں۔ دائیں: بہار میں اپنا پروگرام پیش کرتا رونالی آرکیسٹرا گروپ

پریہ، جو پٹنہ میں کسی آرکیسٹرا شو میں حصہ لینے کے لیے آنے پر مسکان کے ساتھ ہی ٹھہرتی ہیں، جگل بندی میں ڈانس پیش کرتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ تب سے یہ کام کر رہی ہیں، جب وہ صرف ۱۶ سال کی تھیں۔

’’میں یہ کام ہمیشہ نہیں کرتی رہ سکتی،‘‘ اب ۲۰ سال کی ہو چکی پریہ کہتی ہیں۔ وہ آئندہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر خود کا ایک جنرل اسٹور (راشن کی دکان) کھولنا چاہتی ہیں۔ ’’میں جلد ہی بچہ بھی کرنا چاہتی ہوں، اور میں نہیں چاہتی کہ میرے بچے کے سر پر کبھی آرکیسٹرا کے کام کاج کا کوئی سایہ بھی پڑے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

ایک دیگر رقاصہ منیشا نے دسویں پاس کرنے کے بعد آرکیسٹرا کے پروگراموں میں ناچنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے والد اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی ان کی ماں کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ اس سے گھر چلایا جا سکے۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ عارضی کام ہے؛ میں لمبے عرصے تک اس پیشہ میں نہیں رہوں گی۔ کچھ دنوں بعد جب میرے پاس ضرورت کے لائق پیسے ہو جائیں گے، تب میں واپس لوٹ جاؤں گی اور کسی اچھے آدمی کے ساتھ شادی کر لوں گی۔‘‘

جنتا بازار کی کئی گلیوں میں ایسے متعدد منتظمین کے آفس ہیں جو آرکیسٹرا شو کے شعبے میں سرگرم ہیں۔ جنتا بازار، بہار کے سارن ضلع میں چھپرہ شہر کے پاس ایک مقامی بازار ہے۔ وِکّی، جو ایسے ہی ایک آرکیسٹرا آرگنائزر ہیں، کہتے ہیں، ’’جنتا بازار تو پورا ہول سیل بازار جیسا ہے آرکیسٹرا ڈانسروں کا۔‘‘

وِکّی ناچنے والی ان لڑکیوں کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکیوں اور ان کی دیگر پریشانیوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ڈانسروں کے بارے میں ایک عام سوچ یہ ہے کہ وہ ’بدچلن عورتیں‘ ہوتی ہیں اور لوگ ان کا استحصال کرتے ہیں۔ اُن مردوں کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوتی جو ان کی حالت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ وہ یہ بتانا نہیں بھولتے ہیں، ’’میں ایک شادی شدہ آدمی ہوں اور فیملی والا ہوں۔ میری نظر میں رقص کرنے والی یہ لڑکیاں میری فیملی کا حصہ ہیں۔‘‘ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ آرکیسٹرا کے بڑے پروگراموں میں انہیں اکثر کرایے کے سیکورٹی گارڈوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

’’پی پی میں ان کے ساتھ زیادہ فحش حرکتیں کی جاتی ہیں،‘‘ وکّی بتاتے ہیں۔ پی پی سے ان کی مراد پرائیویٹ (نجی) پارٹی ہے، جو عام طور پر رسوخ دار لوگوں کے ذریعے رکھی جاتی ہے۔ ایک دوسرے آرگنائزر راجو کہتے ہیں، ’’اکثر رقص کرنے والی لڑکیوں کے ساتھ پولیس والوں کی موجودگی میں بیہودہ برتاؤ کیا جاتا ہے!‘‘

رپورٹ میں شامل لوگوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Dipshikha Singh

Dipshikha Singh, a 23-year-old development practitioner from Bihar, India, earned her Master's degree in Development from Azim Premji University. She hopes to bring to light the often overlooked stories of women and their lives.

Other stories by Dipshikha Singh
Editor : Dipanjali Singh

Dipanjali Singh is an Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also researches and curates documents for the PARI Library.

Other stories by Dipanjali Singh
Editor : Riya Behl

Riya Behl is a multimedia journalist writing on gender and education. A former Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI), Riya also worked closely with students and educators to bring PARI into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique