کونو کے چیتوں سے متعلق معلومات اب قومی سلامتی کا معاملہ بن گیا ہے، اور اس کی خلاف ورزی سے بیرونی ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات شدید طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔

کم از کم مدھیہ پردیش حکومت کی جانب سے تو یہی وجہ بتائی گئی، جب جولائی ۲۰۲۴ میں حق معلومات (آر ٹی آئی) کے تحت چیتوں کے انتظام کے بارے میں تفصیلات طلب کرنے والی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔ بھوپال سے تعلق رکھنے والے کارکن اجے دوبے، جنہوں نے یہ آر ٹی آئی داخل کی تھی، کہتے ہیں، ’’باگھوں سے متعلق تمام معلومات شفاف ہیں، پھر چیتوں کے بارے میں کیوں نہیں؟ جنگلی جانوروں کے انتظام میں شفافیت معمول ہونا چاہیے۔‘‘

کُونو پارک سے ملحق اگارا گاؤں سے تعلق رکھنے والے رام گوپال اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کے ذریعہ معاش سے ہماری قومی سلامتی اور سفارتی تعلقات کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کو اور ان جیسے ہزاروں آدیواسیوں کو دیگر مسائل کا سامنا ہے۔

حال ہی میں رام گوپال نے ٹریکٹر کا استعمال شروع کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اچانک بیلوں کی بجائے مشین خریدنے  کے متحمل ہوگئے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔

’’مودی جی نے حکم صادر کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے بیلوں کو باندھ کر رکھنا ہے۔ لیکن واحد چراگاہ [کونو] جنگل میں ہے اور اگر ہم داخل ہوئے تو جنگل کے رینجر ہمیں پکڑ کر جیل میں ڈال دیں گے۔ پھر ہم نے سوچا چلو ایک ٹریکٹر ہی کرایے پر لے لیتے ہیں۔‘‘

اس خرچ کا بوجھ رام گوپال اور ان کا کنبہ بمشکل برداشت کر سکتا ہے۔ ان کی گھریلو آمدنی انہیں مضبوطی کے ساتھ خط افلاس سے نیچے قائم رکھے ہوئی ہے۔ کونو نیشنل پارک کے چیتوں کا مسکن بننے کے بعد جنگل پر مبنی ان کے ذریعہ معاش کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

کونو ندی اس علاقے کے باشندوں کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ تھی۔ اب یہ جنگل کے باقی حصوں کی طرح ان کی پہنچ سے باہر ہے۔ سہریا آدیواسی غیر تجارتی لکڑی والی جنگلاتی پیداوار جمع کرنے کے لیے بفر ژون میں داخل ہوتے ہیں

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: سنتو اور رام گوپال تحصیل وجے پور کے اگارا کے رہائشی ہیں اور چیڑ گوند کے درختوں سے اپنی غیر تجارتی لکڑی والی جنگلاتی پیداوار کے لیے جنگل پر انحصار کرتے تھے، جو اب سیل کر دیا گیا ہے۔ دائیں: ان کے بیٹے ہنسراج نے اسکول چھوڑ دیا ہے اور اجرتی کام کے لیے ہجرت کرنے کے خیال پر غور کر رہے ہیں

اس محفوظ علاقہ کو قومی سطح پر ۲۰۲۲ میں اس وقت شہرت ملی جب ایسینونکس جوبیٹس – افریقی چیتا – کو جنوبی افریقہ سے لایا گیا، تاکہ تمام بڑی بلیوں کے مسکن والے واحد ملک کے وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی کی شبیہ پر مہر لگ سکے۔ انہوں نے اپنے یوم پیدائش پر چیتوں کا استقبال کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے نیشنل وائلڈ لائف ایکشن پلان ۲۰۳۱ -۲۰۱۷ میں تحفظ کے ہدف کے طور پر چیتوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں مقامی اور انتہائی خطرے سے دوچار انواع جیسے گریٹ انڈین بسٹرڈ، گنگا ڈولفن، تبتی ہرن اور دیگر  جانوروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کی فہرست دی گئی ہے۔ چیتا لانے کے اقدام کو سپریم کورٹ نے ۲۰۱۳ میں مسترد کر دیا تھا، اور اس کا ’’تفصیلی مطالعہ‘‘ کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس کے باوجود چیتوں کے سفر، باز آباد کاری اور تشہیر میں کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

کونو کو چیتا سفاری میں تبدیل کرنے سے رام گوپال جیسے سہریا آدیواسیوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے اور ان کا ذریعہ معاش تباہ ہو چکا ہے۔ سہریا لوگ غیرتجارتی لکڑی والی جنگلاتی پیداوار (این ٹی ایف پی) جیسے پھل، جڑیں، جڑی بوٹیاں، گوند اور جلاون کی لکڑی کے لیے جنگل پر انحصار کرتے تھے۔ کونو نیشنل پارک (کے این پی) ایک خاصے بڑے علاقے پر محیط ہے جو ۱۲۳۵ مربع کلومیٹر کے وسیع و عریض کونو وائلڈ لائف ڈویژن کا ایک حصہ ہے۔

’’طلوع آفتاب سے غروب آفتاب کے درمیان ۱۲ گھنٹے تک میں اپنے تقریباً ۵۰ درختوں پر کام کرتا تھا، اور چار دن بعد گوند جمع کرنے کے بعد واپس جاتا تھا۔ صرف چیڑ کے درختوں سے مجھے ۱۰ ہزار روپے کی ماہانہ آمدنی حاصل ہوتی تھی،‘‘ رام گوپال کہتے ہیں۔ اب چیڑ گوند کے وہ ۱۲۰۰ قیمتی درخت مقامی لوگوں کی دسترس سے باہر ہو گئے ہیں۔ جب پارک کو چیتا پروجیکٹ میں تبدیل کیا گیا، تو یہ درخت نئے بفر ژون کا حصہ بن گئے۔

رام گوپال اور ان کی بیوی سنتو، جن کی عمریں تیس کی دہائی میں پہنچ چکی ہیں، کے این پی سے متصل بارش پر منحصر اپنی چند بیگھہ زمین پر عموماً اپنے استعمال کے لیے کاشتکاری کرتے ہیں۔ ’’ہم اپنے کھانے کے لیے باجرہ اگاتے ہیں، اور فروخت کرنے کے لیے کچھ تل اور سرسوں  کی کھیتی کرتے ہیں،‘‘ رام گوپال کہتے ہیں۔ یہی وہ کھیت ہے جس میں بوائی کے لیے انہیں ٹریکٹر کرایہ پر لینا پڑتا تھا۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: رام گوپال چیڑ کے درختوں سے گوند جمع کرنے کے طریقے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دائیں: شوہر بیوی کا یہ جوڑا ایک جھیل کے کنارے رکتا ہے جو کونو کے جنگلات سے ملحق ہے، اور جہاں اب ان کے درخت تک ان کی رسائی نہیں ہے

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: رام گوپال اور ان کی بیوی سنتو کے این پی سے ملحق بارش پر منحصر اپنی چند بیگھہ زمین پر کاشتکاری کرتے ہیں، جو زیادہ تر ان کے استعمال کے لیے ہوتی ہے۔ دائیں: اگارا کے تاجر بھی جنگلاتی پیداوار کے نقصان کو محسوس کر رہے ہیں

’’جنگل کے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے کھیتوں میں کاشتکاری کے لیے آبپاشی کی سہولت نہیں ہے۔ چونکہ اب جنگل میں داخلہ پر پابندی لگا دی گئی ہے، ہمیں [کام کے لیے] نقل مکانی کرنی پڑے گی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ایک اضافی مصیبت محکمہ جنگلات کے ذریعہ تیندو کے پتوں کی معمول کی خریداری میں تیزی سے آئی گراوٹ کے روپ میں نازل ہوئی ہے۔ ریاست کے ذریعہ تیندو کے پتوں کی پورے سال چلنے والی خریداری آدیواسیوں کی آمدنی کا مستقل ذریعہ تھی، اور جیسے جیسے خریداری کم ہوئی ہے اسی طرح رام گوپال کی کمائی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

این ٹی ایف پی پورے مدھیہ پردیش کے جنگلوں اور ان سے متصل علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے جیون ریکھا کی طرح ہے۔ ان پیداواروں میں سب سے اہم چیڑ گوند  کے ہیں، جو چیت، ییساکھ، جیٹھ اور اساڑھ (تقریباً مارچ سے جولائی) کے موسم گرما کے مہینوں کو چھوڑ کر پورے سال جمع کیے جاتے ہیں۔ سال ۲۰۲۲ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کونو نیشنل پارک اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق سہریا آدیواسی برادری سے ہے۔ یہ ایک خاص طور پر کمزور قبائلی گروپ (پی وی ٹی جی) ہے، اور ان کی ۹۵ فیصد آبادی اپنی روزی روٹی کے لیے جنگل پر منحصر ہے۔

اگارا گاؤں مقامی لوگوں کا ایک اہم تجارتی مرکز ہے۔ یہ لوگ اپنی جنگلاتی پیداوار راجو تیواری جیسے تاجروں کو فروخت کرنے کے لیے یہاں لے کر آتے ہیں۔ تیواری کا کہنا ہے کہ جنگل پر پابندی عائد ہونے سے پہلے، سینکڑوں کلوگرام گوند اور جڑیں اور جڑی بوٹیاں بازار میں پہنچتی تھیں۔

’’آدیواسی جنگل سے جڑے ہوئے تھے، اور ہم آدیواسیوں سے،‘‘ راجو اپنے خیال کا اظہار کچھ انداز  میں کرتے ہیں۔ ’’ان کا جنگل سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے اور ہم سب اس کے اثرات محسوس کر رہے ہیں۔‘‘

غیر تجارتی لکڑی کی جنگلاتی پیداوار (این ٹی ایف پی) جیسے گوند پورے مدھیہ پردیش کے جنگلوں میں اور اس سے متصل علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے ایک جیون ریکھا کی طرح ہے

ویڈیو دیکھیں: کونو سے بے دخل: ویسے یہ جنگل ہے کس کا؟

*****

جنوری کی ایک سرد صبح کو رام گوپال چند میٹر لمبی رسی اور درانتی لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ کونو نیشنل پارک کی پتھر کی دیواروں والی حدود اگارا میں واقع ان کے گھر سے تین کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ وہ اکثر یہاں آتے ہیں۔ آج وہ اور ان کی بیوی لکڑیاں لانے جا رہے ہیں؛ رسی لکڑیوں کے بنڈل کو باندھنے کے لیے لائی گئی ہے۔

ان کی بیوی سنتو فکر مند ہیں۔ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ وہ لکڑیاں حاصل کرسکیں گی۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ [جنگل کے اہلکار] کبھی کبھی آپ کو اندر نہیں جانے دیتے۔ ہمیں خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑسکتا ہے۔‘‘ اس فیملی کا کہنا ہے کہ گیس کنکشن ہمیشہ ان کی دسترس سے دور رہا ہے۔

’’پرانے گاؤں [پارک کے اندر] میں کونو ندی تھی، اس لیے ہمارے پاس ۱۲ ماہ تک پانی رہتا تھا۔ ہم تیندو، بیر، مہوا، جڑی بوٹی، جلانے کی لکڑی تلاش کر سکتے تھے…‘‘ سنتو آگے بڑھتے ہوئے کہتی ہیں۔

سنتو کی پرورش کونو پارک کے اندر ہوئی تھی اور وہ اپنے والدین کے ساتھ وہاں سے منتقل ہوئی تھیں۔ یہ لوگ ۱۹۹۹ میں بے گھر ہونے والے ۱۶۵۰۰ افراد میں شامل تھے، جنہیں  دنیا میں ایشیائی شیروں کی واحد آبادی کا دوسرا مسکن بنانے کے لیے منتقل کیا گیا تھا۔ سارے شیر فی الحال گیر، گجرات میں مقیم ہیں۔ پڑھیں: کونو پارک کو ۲۳ سالوں سے شیروں کا انتظار ہے

’’ہم آگے بڑھ رہے ہیں، تبدیلی آرہی ہے۔ جنگل میں جانا ہی نہیں ہے،‘‘ رام گوپال کہتے ہیں۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

’پرانے گاؤں [پارک کے اندر] میں کونو ندی بہتی تھی اس لیے ہمیں ۱۲ مہینے پانی ملتا تھا۔ ہمیں تیندو، بیر، مہوا، جڑی بوٹی، جلانے کی لکڑی مل جاتی تھی…‘ سنتو کہتی  ہیں۔ یہ جوڑا اپنے گھر سے لکڑیاں لانے کے لیے کونو جنگل کی طرف روانہ ہوا ہے

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

رام گوپال اور ان کی بیوی  گھر کے لیے جنگل میں لکڑیاں جمع کر تے ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گیس سلنڈر کے متحمل نہیں ہو سکتے

اگرچہ جنگلات کے حقوق کا قانون، ۲۰۰۶ ریاست کو مقامی لوگوں کی رضامندی کے بغیر ان کی زمین چھننے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن چیتوں کی آمد کے ساتھ، جنگلاتی حیات کے تحفظ کا قانون، ۱۹۷۲ قابل اطلاق ہو گیا ہے۔ اس کے مطابق، ’’…سڑک، پل، عمارت، باڑ یا رکاوٹ والے دروازے…بنائے جائیں گے، ایسے اقدامات کیے جائیں گے جس سے پناہ گاہ میں جنگلی جانوروں کی سلامتی اور پناہ گاہ اور جنگلی جانوروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔‘‘

جب رام گوپال نے پہلی بار [باؤنڈری کی] دیوار کے بارے میں سنا، تو ’’مجھے بتایا گیا کہ یہ شجرکاری کے لیے ہے۔ ہم نے سوچا کہ یہ ٹھیک ہے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’لیکن تین سال کے بعد انہوں نے کہا، ’اب آپ اندر داخل نہیں ہوسکتے۔ اس حد سے آگے نہ جائیں۔ اگر آپ کے جانور اندر بھٹکتے ہیں، تو آپ کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا یا جیل جانا پڑے گا،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اگر ہم جنگل میں داخل ہوتے ہیں، تو ہم ۲۰سال کے لیے جیل جائیں گے [ہمیں بتایا گیا تھا]۔ میرے پاس اس کے لیے (ضمانت کے لیے) پیسے نہیں ہیں،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔

چراگاہ کے حقوق کے خاتمہ کے بعد مویشیوں کی آبادی کم ہو گئی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مویشی میلے اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ سال ۱۹۹۹ کی نقل مکانی میں بہت سے لوگوں نے اپنے جانوروں کو پارک میں ہی چھوڑ دیا۔ وہ اس بے یقینی کا شکار تھے کہ وہ پارک سے دور اپنے نئے ماحول میں جانوروں کے چرنے کا انتظام کہاں اور کیسے کریں گے۔ آج بھی گائے اور بیل پارک کے بفر ژون میں گھومتے نظر آ جاتے ہیں، ان میں سے بہت سے آزاد ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے مالکان انہیں چرا نہیں سکتے۔ مویشیوں پر جنگل کے کتوں کے حملے کا خدشہ بھی موجود رہتا ہے، جن کے بارے میں رینجرز نے خبردار کیا ہے، ’’وہ آپ کو تلاش کر کے آپ کو مار ڈالیں گے [اگر آپ یا آپ کے جانور پارک کے اندر جاتے ہیں۔‘‘

لیکن ایندھن کی ایسی سخت ضرورت ہے کہ ’’چوری چھپے‘‘، بہت سے لوگ اب بھی وہاں جاتے ہیں۔ اگارا کی رہائشی ساگو، پتوں اور ٹہنیوں کا ایک چھوٹا سا بنڈل اپنے سر پر اٹھائے ہوئے لا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ عمر کی ساٹھویں دہائی میں وہ اتنا ہی وزن اٹھا سکتی ہیں۔

’’جنگل میں نہیں جانے دے رہے ہیں،‘‘ ہمارے سوال سے انہیں بیٹھنے اور آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے اپنی باقی بھینسیں بھی بیچنی ہوں گی۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

جنگل کی دیوار پر رام گوپال۔ کونو کبھی ۳۵۰ مربع کلومیٹر کی ایک چھوٹی پناہ گاہ تھی، جس کے رقبہ کو افریقی چیتوں کو آباد کرنے کے لیے دوگنا کر دیا گیا تھا

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: ساگو اگارا کی ایک ۶۰ سالہ رہائشی ہیں، جو اب بھی اپنے گھروں کو چلانے کے لیے لکڑیاں لانے کی کوشش کرتی ہیں۔ دائیں: کاشی رام بھی این ٹی ایف پی جمع کرنے جاتے تھے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ جنگل اب بند ہو گیا ہے

ساگو کا کہنا ہے کہ پہلے لوگ گاڑیوں میں بھر کر لکڑیاں لاتے تھے اور برسات کے موسم کے لیے رکھ لیتے تھے۔ انہیں وہ وقت یاد ہے جب ان کا پورا گھر اسی جنگل کی لکڑی اور پتوں سے بنایا گیا تھا۔ ’’جب ہمارے جانور چرتے تھے، تو ہم لکڑیاں، دوسرے جانوروں کے لیے چارہ اور تجارت کے لیے تیندو کے پتے جمع کرتے تھے۔‘‘

سینکڑوں مربع کلومیٹر کا علاقہ اب صرف چیتوں اور ان کا نظارہ کرنے آنے والے سیاحوں کے لیے ہے۔

کاشی رام جب باتیں کرتے ہیں، تو وہ اگارا گاؤں کے ایسے بہت سارے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جنہوں نے بہت کچھ کھویا ہے، ’’چیتا کے آنے سے [ہمارے لیے] کچھ اچھا نہیں ہوا۔ صرف نقصان ہی ہوا ہے۔‘‘

*****

چینٹی کھیڑا، پادری، پیرا-بی، کھجوری خورد اور چکپاروں گاؤں کو اس سے بھی بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سروے کیا گیا ہے، اور کنواری ندی پر ایک باندھ کی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے گھروں اور کھیتوں میں پانی بھر جائے گا۔

’’ہم پچھلے ۲۰ سالوں سے باندھ کے بارے میں سن رہے ہیں۔ افسران کہتے ہیں، ’آپ کو منریگا کے تحت کام نہیں ملے گا کیونکہ آپ کے گاؤں باندھ کی وجہ سے منتقل کیے جانے والے ہیں،‘‘ جسرام آدیواسی کہتے ہیں۔ چینٹی کھیڑا کے سابق سرپنچ بتاتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو منریگا کے فوائد نہیں ملے ہیں۔

اپنے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر، جہاں سے کنواری ندی کچھ ہی فاصلہ پر ہے، وہ کہتے ہیں، ’’باندھ اس علاقے کو گھیر لے گا۔ ہمارا گاؤں اور ۷ سے ۸ دیگر گاؤوں ڈوب جائیں گے لیکن ابھی تک ہمیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

جسرام آدیواسی چینٹی کھیڑا گاؤں کے سابق سرپنچ ہیں۔ یہ گاؤں کنواری ندی پر ایک باندھ بننے کے بعد زیر آب آ جائے گا۔ یہاں اپنی بیوی ماسلا آدیواسی کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں

PHOTO • Priti David

کنواری ندی پر باندھ بنانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ اس پروجیکٹ سے چار گاؤوں اور وہاں آباد سینکڑوں خاندان بے گھر ہو جائیں گے

ایسا کرنا تحویل اراضی میں منصفانہ معاوضہ اور شفافیت، باز آباد کاری اور باز رہائش کے حق کے قانون ، ۲۰۱۳ (ایل اے آر آر اے) کے ضوابط کی صریح خلاف ورزی ہے، جو لوگوں کو بے گھر کیے جانے کے اقدامات کو واضح طور پر بیان کرتا ہے جیسے کہ گاؤں کے لوگوں کے ساتھ سماجی اثرات کا مطالعہ۔ اس کے لیے تاریخوں کا اعلان مقامی زبان (باب دوم اے ۴ (۱)) میں کیا جانا چاہیے، سبھی کو شمولیت کے لیے نوٹس دینا چاہیے، وغیرہ۔

’’ہم ۲۳ سال پہلے بھی بے گھر ہوئے تھے۔ بڑی مشکل سے ہم نے دوبارہ اپنی زندگی شروع کی ہے،‘‘ چکپارہ گاؤں کے ستنام آدیواسی کہتے ہیں۔ وہ اکثر جے پور، گجرات اور دیگر مقامات پر تعمیراتی مقامات پر اجرتی کام کے لیے جاتے ہیں۔

ستنام کو باندھ کی جانکاری گاؤں کے واٹس ایپ گروپ پر چلائی گئی ایک خبر سے ملی تھی۔ ’’ہم سے کسی نے بات نہیں کی، ہم نہیں جانتے کہ کون اور کتنے گاؤں زیر آب آئیں گے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ محکمہ محصولات کے افسران نے نوٹ کیا کہ کون سے گھر پکے یا کچے ہیں، کون کتنی زمین پر قابض ہے، وغیرہ۔

آخری نقل مکانی کی یادیں ان کے والد سوجان سنگھ کے لیے ابھی دندھلی نہیں ہوئی ہیں، جو اب دوبارہ بے گھر ہو جائیں گے۔ ’’ہمارے اوپر ڈبل کشٹ ہو رہا ہے [ہم دوہری مصیبت میں مبتلا ہیں]۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Video Editor : Sinchita Parbat

Sinchita Parbat is a Senior Video Editor at the People’s Archive of Rural India, and a freelance photographer and documentary filmmaker. Her earlier stories were under the byline Sinchita Maji.

Other stories by Sinchita Parbat
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam