طوفانی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے بُنکر صبح ساڑھے چھ بجے سے ہی کام میں مصروف ہیں۔ ایک دن میں ۱۲ انچ کی رفتار سے ان چار بُنکروں کو ۲۳ ضرب ۶ فٹ کا ایک غالیچہ تیار کرنے میں ۴۰ دن لگیں گے، جسے وہ بُننے میں مصروف ہیں۔

آدھی دوپہر گزر چکی ہے، اور طوفانی بِند کو لکڑی کی ایک بینچ پر تھوڑی دیر آرام کرنے کا موقع صبح سے ابھی ملا ہے۔ ان کے پیچھے کی ٹین شیڈ میں ایک لکڑی کے فریم پر سوتی کے سفید دھاگے لٹکے ہوئے ہیں۔ طوفانی اسی شیڈ کے نیچے کام کرتے ہیں۔ ان کا یہ ورکشاپ اتر پردیش کے پُرجاگیر موجیہرا گاؤں میں ہے۔ یہ گاؤں ریاست کی قالین بُنائی صنعت کا ایک اہم مرکز ہے۔ اس ہنر کو یہاں مغل لے کر آئے تھے، لیکن اسے صنعت کی شکل انگریزوں نے دی۔ قالین، غالیچہ اور چٹائی کی صنعت پر اتر پردیش کا غلبہ ہے۔ سال ۲۰۲۰ کے آل انڈیا ہینڈ لوم سینسس کے مطابق، مجموعی قومی پیداوار میں تقریباً آدھی حصہ داری (۴۷ فیصد) اکیلے اتر پردیش کی ہے۔

جیسے ہی آپ مرزا پور شہر سے آنے والے ہائی وے کو چھوڑ کر پُرجاگیر موجیہرا گاؤں والے راستے پر آگے بڑھتے ہیں، یہ سڑک آگے جاتی ہوئی لگاتار تنگ ہوتی جاتی ہے۔ سڑک کے دونوں طرف پختہ مکان بنے ہوئے ہیں، جو زیادہ تر ایک منزل والے ہیں۔ پھوس کی چھت والے کچے مکانوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ گوبر کے اُپلوں سے اٹھتا ہوا دھواں ہوا میں پھیل رہا ہے۔ دن کے وقت مرد گھر کے باہر بمشکل نظر آتے ہیں، البتہ ہینڈ پمپ کے نیچے کپڑے دھونے یا سبزی اور فیشن کے سامان بیچنے والے مقامی دکانداروں سے بات چیت کرتی عورتیں یا دوسرے گھریلو کاموں میں مصروف عورتیں ضرور نظر آ جاتی ہیں۔

ایسی کوئی نشانی نہیں ملتی، جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ یہ بُنکروں کا علاقہ ہے – کہیں کوئی قالین یا غالیچہ [جیسا کہ مقامی لوگ اسے کہتے ہیں] ٹنگا یا رکھا ہوا نہیں دکھائی دیتا ہے، جب کہ تقریباً سبھی گھروں میں الگ سے کوئی جگہ یا کمرہ ضرور ہے، جہاں قالینوں کی بُنائی کی جاتی ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ بن کر تیار ہوتے ہیں، بچولیے ان کی دھلائی اور صفائی کرنے کے لیے لے جاتے ہیں۔

اپنے آرام کرنے کے وقت سے تھوڑا وقت نکال کر پاری سے بات چیت کرتے ہوئے طوفانی کہتے ہیں، ’’میں نے یہ کام [پھندے والی بُنائی کا] اپنے والد سے سیکھا تھا اور اسے تقریباً ۱۳-۱۲ سال کی عمر سے کر رہا ہوں۔‘‘ ان کی فیملی کا تعلق بِند برادری سے ہے، جو ریاست میں دیگر پس ماندہ طبقہ (او بی سی) کی فہرست میں شامل ہے۔ مردم شماری کے مطابق، اتر پردیش میں زیادہ تر بِند او بی سی کی فہرست میں آتے ہیں۔

PHOTO • Akanksha Kumar

پُرجاگیر موجیہرا گاؤں کے بُنکر طوفانی بِند ہینڈ لوم کے سامنے ایک پاٹا (لکڑی کی بینچ) پر بیٹھے ہوئے

PHOTO • Akanksha Kumar
PHOTO • Akanksha Kumar

بائیں: قالین ورکشاپ کا منظر۔ کرگھے کو کمرے کے دونوں طرف کھودے گئے گڑھے میں لگایا گیا ہے۔ دائیں: پُرجاگیر گاؤں کا اینٹ اور گارے کا بنا ایک ورکشاپ۔ یہاں کے زیادہ تر ورکشاپ اسی قسم کے بنے ہوئے ہیں

ان کے گھر میں بنے اس ورکشاپ میں جگہ کی بیحد تنگی ہے اور اس کا فرش مٹی کا ہے۔ ہوا اور روشنی کے لیے صرف ایک کھڑکی اور دروازہ ہے، اور کمرے میں زیادہ تر جگہ اکیلے کرگھے نے گھیر رکھی ہے۔ طوفانی کے ورکشاپ کی طرح ہی دوسرے ورکشاپ بھی لمبے اور تنگ ہیں اور ان میں لوہے کا کرگھا مشکل سے آ پاتا ہے۔ اتنی کم جگہ میں ایک وقت میں کرگھے پر کئی بُنکر ساتھ کام کرتے ہیں۔ دوسرے بُنکر گھر کے اندر چھوٹے سائز کے کرگھے پر کام کرتے ہیں، جو لوہے یا لکڑی کی سلاخوں کے سہارے لگے ہوتے ہیں۔ قالین بُنائی کے کام میں پوری فیملی مدد کرتی ہے۔

طوفانی سوتی دھاگوں سے بنے ایک چوکھٹے پر اونی دھاگوں سے ٹانکے لگا رہے ہیں۔ اس تکنیک کو ناٹیڈ یا ٹپکا بُنائی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹپکا فی مربع انچ پر لگائے جانے والے ٹانکوں کی تعداد کے بارے میں بتاتا ہے۔ قالین کی قسموں میں سب سے زیادہ جسمانی محنت ناٹیڈ قالین کی بُنائی میں ہی لگتی ہے، کیوں کہ یہ ٹانکے کاریگر ہاتھ سے لگاتے ہیں۔ اس کام کے لیے طوفانی کو ہر کچھ منٹ کے بعد سوت [سوتی] کے چوکھٹے کو دمبھ [بانس کے لیور] کی مدد سے ٹھیک کرنے کے لیے کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ پالتھی مار کر بیٹھنے اور ہر کچھ منٹ پر اٹھ کھڑے ہونے کا یہ مسلسل عمل جسم سے اس کی قیمت بھی وصول کرتا ہے۔

ناٹیڈ بُنائی کے برعکس قالین کی گچھے دار بُنائی نسبتاً ایک نیا طریقہ ہے، جس میں کڑھائی کے لیے ہاتھ سے چلائی جا سکنے والی مشین کی مدد لی جاتی ہے۔ ناٹیڈ بُنائی مشکل ہے اور اس میں کم پیسے ملتے ہیں۔ اس لیے گزشتہ تقریباً دو دہائیوں میں بہت سے کاریگر اب اس بُنائی کو چھوڑ کر گچھے دار بُنائی کی طرف جا چکے ہیں۔ کئی کاریگروں نے تو یہ کام ہی پوری طرح سے چھوڑ دیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، ایک دن میں ۲۵۰-۲۰۰ روپے کی آمدنی کافی نہیں ہے۔ مئی ۲۰۲۴ میں ریاست کے محکمہ محنت نے اعلان کیا تھا کہ نیم ہنرمند مزدوروں کی یومیہ اجرت ۴۵۱ روپے ہوگی، لیکن یہاں کام کرنے والے مزدور بتاتے ہیں کہ انہیں اتنی رقم ادا نہیں کی جاتی ہے۔

مرزا پور محکمہ صنعت کے ڈپٹی کمشنر اشوک کمار بتاتے ہیں کہ پُرجاگیر کے بُنکروں کو ایک مقابلہ سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اتر پردیش میں سیتاپور، بھدوہی اور پانی پت ضلعوں میں بھی قالین بُننے کا کام ہوتا ہے۔ ’’مانگ میں کمی ہونے کی وجہ سے سپلائی پر برا اثر پڑا ہے،‘‘ وہ انکشاف کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ دوسری مشکلیں بھی ہیں۔ سال ۲۰۰۰ سے پہلے کے ابتدائی برسوں میں قالین صنعت میں بچہ مزدوروں سے کام کرائے جانے کے مبینہ الزامات نے اس کی شبیہ خراب کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ یورپ میں تیار کردہ ترکی کے مشین سے بُنے گئے قالین سستی قیمتوں پر دستیاب تھے۔ اور، دھیرے دھیرے یوروپی بازار غائب ہو گئے۔ یہ بات مرزا پور کے ایک ایکسپورٹر سدھ ناتھ سنگھ بتاتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ریاست کے ذریعے فراہم کردہ مالی مدد گھٹ کر ۵-۳ فیصد رہ گئی، جو پہلے ۱۲-۱۰ فیصد تک ہوا کرتی تھی۔

’’تقریباً ۱۲-۱۰ گھنٹے کام کرنے پر ۳۵۰ روپے یومیہ کمانے کی بجائے ہم شہر میں مزدوری کیوں نہ کریں، جہاں ایک دن کے ۵۵۰ روپے ملتے ہیں،‘‘ سنگھ کا سوال واجب ہے۔ وہ کارپیٹ ایکسپورٹ پروموشن کونسل (سی ای پی سی) کے سابق صدر ہیں۔

PHOTO • Akanksha Kumar
PHOTO • Akanksha Kumar

کرگھے کے لوہے کی پائپ (بائیں) پر چڑھا ہوا سوتی کا دھاگہ اور دھاگے کا چوکھٹہ بدلنے کے لیے کرگھے سے جڑا (بائیں) بانس کا لیور

طوفانی کبھی بُنائی کے ہنر میں ماہر تھے۔ وہ ایک ساتھ ۱۰-۵ رنگین دھاگوں سے بُنائی کر سکتے تھے۔ لیکن، مناسب مزدوری نہ ملنے کے سبب اب ان کا جوش ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ ’’بچولیوں کے کمیشن نے ہمارا برا حال کر دیا ہے۔ ہم رات دن پسینہ بہا کر محنت کرتے ہیں، لیکن ان کی کمائی ہم سے کہیں زیادہ ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

تقریباً ۱۲-۱۰ گھنٹے کی شفٹ کے عوض وہ آج کل صرف ۳۵۰ روپے کماتے ہیں۔ ان کی اجرت اس بات پر منحصر ہے کہ ایک دن میں انہوں نے کتنی بُنائی کی ہے اور ان کے پیسوں کی ادائیگی بھی مہینہ کے آخر میں ہوتی ہے۔ لیکن، وہ کہتے ہیں کہ یہ سسٹم ختم ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ ان کی محنت کی مناسب اجرت کے برعکس ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ہنرمند کاریگروں کو ملنے والی اجرت کی طرح انہیں بھی کم از کم ۷۰۰ روپے کی ادائیگی کی جانی چاہیے۔

بچولیوں یا ٹھیکہ دار کو، جو انہیں کام دلواتے ہیں، گز کی بنیاد پر ادائیگی کی جاتی ہے۔ ایک گز تقریباً ۳۶ انچ کے برابر ہوتا ہے۔ ایک عام قالین چار سے پانچ گز کی ہوتی ہے، جس کے عوض ٹھیکہ دار کو تقریباً ۲۲۰۰ روپے ملتے ہیں، جب کہ بُنکر کو صرف ۱۲۰۰ روپے ہی ملتے ہیں۔ حالانکہ، کاتی (اونی دھاگے) اور سوت (سوتی دھاگے) جیسے خام مالوں کی قیمت ٹھیکہ دار ہی ادا کرتے ہیں۔

طوفانی کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، جو اسکول میں پڑھتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ بڑے ہو کر ان کے بچے ان کے قدموں پر چلیں۔ ’’ان کو بھی وہی کام کیوں کرنا چاہیے جسے کرتے ہوئے ان کے باپ دادا نے اپنی زندگی ختم کر دی؟ کیا انہیں پڑھ لکھ کر کچھ اچھا نہیں کرنا چاہیے؟‘‘

*****

ایک سال میں طوفانی اور ان کے گروپ کے ساتھی تقریباً ۱۲-۱۰ قالین بنا لیتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے راجندر موریہ اور لال جی بِند کی عمر تقریباً ۵۰ کے آس پاس ہے۔ وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں کام کرتے ہیں، جہاں ہوا اور روشنی آنے جانے کے لیے صرف ایک کھڑکی اور ایک دروازہ ہے۔ گرمی کے دن ان کے لیے کافی مشکلوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو اسبسطوس کی چھت کے سبب اس ادھ پکے کمرے کی گرمی میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

’’غالیچہ بنانے کا پہلا قدم تانا یا تنانا ہوتا ہے،‘‘ طوفانی کہتے ہیں۔ اس کام کے تحت سوتی دھاگوں کے چوکھٹے کو کرگھے پر چڑھایا جاتا ہے۔

PHOTO • Akanksha Kumar
PHOTO • Akanksha Kumar

بائیں: طوفانی کے ساتھ کام کرنے والے راجندر موریہ اور دوسرے بُنکر اونی دھاگوں کو سیدھا کرتے ہوئے۔ دائیں: ان کے رفیق کار لال جی بِند بتاتے ہیں کہ کئی کئی گھنٹے لگاتار بُنائی کرنے کے سبب ان کی آنکھ کی روشنی پر برا اثر پڑا ہے

PHOTO • Akanksha Kumar
PHOTO • Akanksha Kumar

بائیں: کرگھے سے جڑی لوہے کی بیم پر لگا ہُک سوتی دھاگے کے فریم کو پھسلنے سے روکتا ہے۔ دائیں: ٹانکوں کو ٹھیک سے جمانے کے لیے بُنکر ایک پنجہ (لوہے کی کنگھی) کا استعمال کرتے ہیں

تقریباً ۲۵ ضرب ۱۱ فٹ کے ایک مستطیل کمرے میں دونوں طرف دو گڑھے کھُدے ہیں، جن پر کرگھے کو رکھا گیا ہے۔ کرگھا لوہے کا بنا ہے جس کے ایک طرف قالین کے چوکھٹے کو اٹھائے رکھنے کے لیے رسیاں بندھی ہیں۔ طوفانی نے اس کرگھے کو پانچ یا چھ سال پہلے ۷۰ ہزار روپے کے قرض پر خریدا تھا۔ اس قرض کو ماہانہ قسطوں پر ادا کرنا تھا۔ ’’میرے والد اپنے زمانے میں لکڑی کے کرگھے کا استعمال کرتے تھے، جنہیں پتھر کے ستونوں پر رکھا جاتا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

قالین کی ہر گانٹھ میں چھرّی (سیدھا ٹانکہ) ہوتی ہے، جس کے لیے بُنکر اونی دھاگوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اسے جمائے رکھنے کے لیے طوفانی سوتی دھاگے سے ایک لچھی (سوتی دھاگوں کے چاروں طرف ’یو‘ کی شکل کے لوپ) بناتے ہیں۔ وہ اسے اونی دھاگوں کے کھلے سرے کے سامنے لاتے ہیں اور اسے ایک چھُرے (چھوٹے چاقو) کی مدد سے کاٹتے ہیں۔ پھر ایک پنجہ (لوہے کی کنگھی) کی مدد سے وہ ٹانکے کی پوری لائن کو ٹھونکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کاٹنا اور ٹھونکنا – ناٹیڈ بُنائی میں سب سے اہم ہیں۔‘‘

کاریگر کی صحت پر بُنائی کا برا اثر پڑتا ہے۔ ’’گزشتہ برسوں میں اس کام کے سبب میری آنکھیں بہت خراب ہو گئی ہیں،‘‘ لال جی بِند بتاتے ہیں۔ وہ گزشتہ ۳۵ برسوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ انہیں کام کرنے کے وقت چشمہ پہننا پڑتا ہے۔ دوسرے بُنکر پیٹھ درد کی شکایت کرتے ہیں۔ کچھ تو سائیٹکا جیسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہیں۔ ’’ہمارے پاس بہت کم متبادل موجود تھے۔ دیہی اتر پردیش میں تقریباً ۷۵ فیصد بُنکر مسلم برادری سے آتے ہیں۔ یہ بات مردم شماری سے واضح ہوتی ہے۔

’’تقریباً ۱۵ سال پہلے تک ۸۰۰ خاندان پھندے والی بُنائی کے ذریعے اپنا گزارہ چلاتے تھے،‘‘ پُرجاگیر کے ہی ایک اور بُنکر اروِند کمار بِند یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’آج ایسے خاندانوں کی تعداد گھٹ کرصرف ۱۰۰ کے آس پاس رہ گئی ہے۔‘‘یہ پُرجاگیر موجیہرا کی کل آبادی ۱۱۰۷ (مردم شماری ۲۰۱۱) کے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔

PHOTO • Akanksha Kumar
PHOTO • Akanksha Kumar

بائیں: سوتی اور اونی دھاگوں کی مدد سے ہو رہی ناٹیڈ قالین کی بُنائی، جس میں ڈیزائن کا ایک نقشہ کرگھے کی لمبائی کے متوازی چلتا ہے۔ دائیں: بُنکر چھرّی یا لائن میں لگائے جانے والے ٹانکوں کے لیے اونی دھاگے استعمال کرتے ہیں

PHOTO • Akanksha Kumar
PHOTO • Akanksha Kumar

بائیں: سوتی دھاگوں کا استعمال ’یو‘ کی شکل کے لوپ یا لچھّی میں ٹانکے لگانے کے لیے ہوتا ہے۔ دائیں: ایک چُھرا، جس کا استعمال کھلے اونی دھاگوں کو کاٹنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس کام سے قالین کو روئیں دار بنایا جاتا ہے

قریب کے دوسرے ورکشاپ میں بالا جی بِند اور ان کی بیوی تارا دیوی پوری خاموشی کے ساتھ ایک سومَک یا ناٹیڈ قالین پر کام کرنے میں مصروف ہیں۔ بیچ بیچ میں صرف دھاگوں کو چاقو سے کاٹے جانے کی آوازیں آتی ہیں۔ سومَک ایک یک رنگی غالیچہ ہے، جس کا ڈیزائن ایک جیسا ہوتا ہے۔ وہ بُنکر جن کے پاس چھوٹے کرگھے ہوتے ہیں وہ اسے خاص طور پر بنانا چاہتے ہیں۔ ’’اگر میں ایک مہینہ کے اندر اسے پورا کر لوں گا، تو اس قالین کو میں ۸۰۰۰ روپے میں فروخت کر سکتا ہوں،‘‘ بالا جی کہتے ہیں۔

قالین صنعت کے لیے مشہور پُرجاگیر اور باغ کُنجل گیر، ان دونوں گاؤوں میں بالا جی کی بیوی تارا جیسی عورتیں نہ صرف ساتھ ساتھ کام کرتی ہیں، بلکہ تعداد میں بھی وہ کل بُنکروں کا تقریباً ایک تہائی ہیں۔ لیکن ان کی محنت کو عام طور پر اندیکھا کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسکول کی پڑھائی لکھائی کے درمیان اور گرمی کی چھٹیوں کے دوران بچے بھی اس صنعت میں ہاتھ بٹاتے ہیں، تاکہ پیداوار کو رفتار دی جا سکے۔

ہزاری بِند اور ان کی بیوی شیام دُلاری ایک قالین کو وقت پر مکمل کرنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ انہیں اپنے دونوں بیٹوں کی کمی ستاتی ہے، جو ان کی مدد کیا کرتے تھے، لیکن اب مزدوری کرنے کے لیے وہ سورت چلے گئے ہیں۔ ’’بچوں نے ہم سے بولا کہ ہم لوگ اس میں نہیں پھنسیں گے پاپا۔‘‘

PHOTO • Akanksha Kumar
PHOTO • Akanksha Kumar

بائیں: ایک ناٹیڈ قالین، جسے سومَک کہتے ہیں، کو بُنتے بالا جی بِند اور ان کی بیوی تارا دیوی۔ یہ ایک ہی رنگ کی قالین ہوتی ہے اور پوری قالین میں ڈیزائن بھی ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ دائیں: شاہ عالم اپنی ٹفٹیڈ گن کا سیٹ دکھاتے ہوئے، جو استعمال میں نہیں ہونے کی وجہ سے زنگ آلودہ ہوچکی ہے

PHOTO • Akanksha Kumar
PHOTO • Akanksha Kumar

بائیں: ہزاری بند کے گھر میں ایک کرگھا ہے، جس پر وہ سومَک کی بُنائی کرتے ہیں۔ دائیں: سوتی دھاگوں کے بغل میں کھڑی ہزاری کی بیوی شیام دُلاری۔ پُرجاگیر جیسی بُنکر بستیوں میں عورتیں بھی قالین بُننے کا کام کرتی ہیں، حالانکہ عام طور پر ان کی محنت کی لوگ اندیکھی کرتے ہیں

لگاتار کم ہوتی آمدنی اور کڑی محنت کے سبب صرف نوجوان ہی اس دھندے سے دور ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ ۳۹ سالہ شاہ عالم جیسے آدمی نے تین سال پہلے قالین بنانے کا کام چھوڑ دیا اور اب اپنا ای رکشہ چلانے لگے ہیں۔ پُرجاگیر سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور نٹوا گاؤں کے رہائشی شاہ عالم نے قالین بُننے کا کام ۱۵ سال کی عمر میں شروع کیا تھا اور اگلے ۱۲ سالوں میں انہوں نے ناٹیڈ بُنائی سے گُچھّے دار بُنائی کا ثالث بننے کا سفر طے کر لیا۔ آخرکار تین سال قبل انہوں نے اپنا کرگھا بیچ دیا۔

’’پوسا نہیں رہا تھا،‘‘ دو کمرے کے اپنے نئے بنے گھر میں بیٹھے وہ کہتے ہیں۔ سال ۲۰۱۴ سے لے کر ۲۰۲۲ تک انہوں نے دبئی کی ٹائلز بنانے والی کمپنی میں کام کیا، جہاں انہیں ۲۲ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے طور پر ملتے تھے۔ ’’کم از کم اس آمدنی سے میں نے اپنا یہ چھوٹا سا گھر بنا لیا ہے،‘‘ ٹائلز لگی فرش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ ’’مجھے قالین بُننے کے لیے صرف ۱۵۰ روپے ملتے تھے، آج میں ڈرائیور کے طور پر روزانہ کم از کم ۳۰۰-۲۵۰ روپے تک کما لیتا ہوں۔‘‘

ریاستی حکومت کی ’وَن ڈسٹرکٹ وَن پروڈکٹ‘ اسکیم قالین بُنکروں کو مالی مدد فراہم کرتی ہے، جب کہ مرکزی حکومت کی ’مُدرا یوجنا‘ انہیں رعایتی شرحوں پر قرض لینے میں مدد کرتی ہے۔ لیکن، شاہ عالم جیسے بُنکر بلاک کی سطح پر بیداری مہم چلائے جانے کے بعد بھی ان اسکیموں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔

سڑک کے راستے ایک چھوٹا فاصلہ طے کر کے پُرجاگیر موجیہرا کے پاس ہی باغ کُنجل گیر میں ظہیر الدین ’گل تراش‘ کا کام کرتے ہیں۔ یہ گُچھے دار قالین کے ڈیزائنوں کی فنشنگ کا کام ہے۔ تقریباً ۸۰ سال کے ظہیر الدین نے ’مکھیہ منتری ہست شلپ پنشن یوجنا‘ کے تحت اپنا نام درج کرایا تھا۔ ریاستی حکومت کی اسکیم، جو ۲۰۱۸ میں شروع ہوئی تھی، ۶۰ سال سے زیادہ عمر کے دستکاروں کے لیے ۵۰۰ روپے کی پنشن کو یقینی بناتی ہے۔ لیکن ظہیر الدین بتاتے ہیں کہ تین مہینے تک ملنے کے بعد ان کی پنشن ایک دن اچانک روک دی گئی۔

پھر بھی، وہ اُس راشن سے خوش ہیں جو انہیں ’پردھان منتری غریب کلیان انّ یوجنا‘ (پی ایم جی کے اے وائی) کے تحت ملتا ہے۔ یہاں تک کہ پُرجاگیر گاؤں کے بُنکروں نے بھی پاری کو ’’مودی کا غلّہ‘‘ [وزیراعظم مودی کی اسکیم کے حصہ کے طور پر ملنے والا اناج] کے بارے میں بتایا۔

PHOTO • Akanksha Kumar
PHOTO • Akanksha Kumar

بائیں: باغل کنجل گیر میں رہنے والے ظہیر الدین ’گل تراش‘ بنانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ گچھے دار قالین کی فنشنگ (بائیں) کا ہنر ہے۔ وہ ایک تیار ہو چکی گچھے دار قالین (دائیں) کو پکڑ کر اٹھاتے ہیں، جو ایک پائیدان کے سائز کی ہے

PHOTO • Akanksha Kumar
PHOTO • Akanksha Kumar

بائیں: خلیل احمد، جنہیں پدم شری سے نوازا جا چکا ہے، پاری کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ اپنی تصویر دکھاتے ہوئے۔ دائیں: ایران، برازیل اور اسکاٹ لینڈ جیسے ممالک کا دورہ کرنے کے بعد خلیل کے ذریعے تیار کردہ ڈیزائن

فی کلو سوتی دھاگے، جسے ۶۵ سالہ شمس النساء لوہے کے اسپننگ وہیل پر سیدھا کرتی ہیں، اور اس کے عوض میں سات روپے لیتی ہیں۔ اس کام سے موٹے طور پر وہ دن بھر میں ۲۰۰ روپے کما لیتی ہیں۔ ان کے مرحوم شوہر حصرالدین انصاری ناٹیڈ قالین بُننے کا کام کرتے تھے۔ بعد میں، ۲۰۰۰ کے ابتدائی سالوں میں ان کی فیملی گچھے دار قالین بنانے کا کام کرنے لگی۔ ان کا بیٹا سراج انصاری بُنائی کے کام میں اپنا مستقبل دیکھتا ہے، کیوں کہ اس کی نظر میں گچھے دار قالینوں کا بازار بھی اب مندا پڑ چکا ہے۔

جہاں ظہیر الدین رہتے ہیں، اسی کے آس پاس کے علاقے میں خلیل احمد بھی اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔ سال ۲۰۲۴ میں ۷۵ سالہ خلیل کو دریاں بنانے کے کام میں ناقابل یقین تعاون فراہم کرنے کے لیے پدم شری سے نوازا گیا۔ اپنے ڈیزائنوں کو دکھاتے وقت وہ اردو میں لکھی ایک عبارت کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ’’اس پر جو بیٹھے گا، وہ قسمت والا ہوگا،‘‘ وہ عبارت کو پڑھتے ہیں۔

لیکن بُنکروں کی قسمت روٹھ گئی ہے، جو انہیں بُنتے ہیں۔

مترجم: قمر صدیقی

Akanksha Kumar

Akanksha Kumar is a Delhi-based multimedia journalist with interests in rural affairs, human rights, minority related issues, gender and impact of government schemes. She received the Human Rights and Religious Freedom Journalism Award in 2022.

Other stories by Akanksha Kumar
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique