’’ہلکا غصہ دکھانے کے لیے آنکھوں کو تھوڑا اوپر کی جانب اٹھانا پڑتا ہے…تیز غصے میں آنکھیں بڑی ہو جاتی ہیں، بھویں اوپر کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ خوشی کا اظہار کرنے کے لیے گال مسکراہٹ کے ساتھ پھول جاتے ہیں۔‘‘

اتنی باریکی سے چیزوں پر دھیان دینا ہی دلیپ پٹنائک کو جھارکھنڈ کے سرائے کیلا چھاؤ رقصوں میں استعمال کیے جانے والے مکھوٹوں کے کاریگر کے طور پر خاص بناتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مکھوٹے میں کردار کی جھلک ملنی چاہیے۔ سرائے کیلا مکھوٹے انوکھے ہیں، کیوں کہ وہ نو رس یعنی نو جذبات کو سمیٹے رہتے ہیں۔ یہ بات کسی دیگر چھاؤ طرز میں نہیں ملتی ہے۔‘‘

تیاری کے مختلف مراحل میں پھنسے مکھوٹے ان کی ورکشاپ میں چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں، جو اپنی خصوصیات میں منفرد نظر آتے ہیں: پھیلی آنکھیں، پنسل جیسی پتلی بھویں، چمکتا رنگ۔ سبھی الگ الگ جذبات کو پکڑتے ہیں۔

اس فن میں رقص اور مارشل آرٹ کا امتزاج ہوتا ہے، اور رقص کرنے والے رامائن، مہابھارت کی کہانیوں اور مقامی لوک کتھاؤں کا کردار نبھاتے وقت ان مکھوٹوں کو پہنتے ہیں۔ دلیپ ہر طرح کے مکھوٹے بناتے ہیں، لیکن ان کا پسندیدہ کرشن کا مکھوٹا ہے، کیوں کہ ’’بڑی آنکھوں اور اٹھی ہوئی بھووں کے ساتھ غصہ دکھانا آسان ہوتا ہے، لیکن شرارت کا انداز دکھانا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔‘‘

دلیپ خود پرفارم کرتے ہیں، اس سے بھی انہیں اپنے کام میں مدد ملتی ہے۔ جب وہ چھوٹے تھے، تو چھاؤ رقص ٹولی کا حصہ ہوا کرتے تھے اور انہوں نے زیادہ تر چیزیں چھاؤ جشن کے دوران مقامی شیو مندر میں ہونے والی پیشکش کو دیکھ کر سیکھیں۔ لیکن، کرشن کا رقص ان کا پسندیدہ رہا ہے۔ آج کی تاریخ میں وہ ڈھول بجاتے ہیں اور سرائے کیلا چھاؤ ٹولی کا حصہ ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

دلیپ پٹنائک، سرائے کیلا ضلع کے ٹینٹو پوسی گاؤں میں اپنے گھر (بائیں) پر۔ وہ ٹینٹو پوسی کے شیو مندر کے پاس مقامی چھاؤ پیشکش کے دوران ڈھول (دائیں) بجا رہے ہیں

دلیپ اپنی بیوی، چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ جھارکھنڈ کے سرائے کیلا ضلع کے ٹینٹو پوسی گاؤں میں رہتے ہیں، جہاں ایک ہزار سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ کھیتوں کے درمیان واقع ان کا دو کمرے کا اینٹوں سے بنا گھر اور اس کا احاطہ ان کی ورکشاپ کے طور پر بھی کام آتا ہے۔ سامنے کے دروازے کے پاس مٹی کا ڈھیر پڑا ہوا ہے اور گھر کے سامنے نیم کا ایک بڑا درخت ہے، جس کے نیچے بیٹھ کر وہ اچھے موسم میں کام کرتے ہیں۔

تیسری نسل کے فنکار دلیپ کہتے ہیں، ’’میں بچپن سے اپنے والد [کیشو آچاریہ] کو مکھوٹے بناتے دیکھتا آ رہا تھا۔ وہ مٹی سے کوئی بھی کردار گڑھ دیتے تھے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ سرائے کیلا کے سابق شاہی خاندان نے اس ہنر کو کافی فروغ دیا تھا اور مکھوٹے بنانا سکھانے کے لیے ہر گاؤں میں تربیتی مراکز ہوا کرتے تھے؛ ان کے والد بھی ٹیچر تھے۔

صدیوں پرانی اس روایت کو قائم رکھنے والے آخری کاریگروں میں سے ایک، دلیپ (۶۵) کہتے ہیں، ’’میں ۴۰ سال سے ایسے مکھوٹے بنا رہا ہوں۔ لوگ مجھ سے سیکھنے کے لیے بہت دور دور سے آتے ہیں۔ وہ امریکہ، جرمنی، فرانس سے آتے ہیں…‘‘

اوڈیشہ کے ساتھ لگی ریاست کی سرحد پر واقع سرائے کیلا، رقص و موسیقی کے شائقین کا مرکز رہا ہے۔ سرائے کیلا چھاؤ کیندر کے سابق ڈائریکٹر، گرو تپن پٹنائک (۶۲) کہتے ہیں، ’’سرائے کیلا ہر طرح کے چھاؤ رقصوں کی ماں ہے، اور یہیں سے یہ میور بھنج [اوڈیشہ] اور مان بھوم [پرولیہ] تک پھیلا۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ سرائے کیلا شاہی چھاؤ ٹولی نے ۱۹۳۸ میں پورے یوروپ میں فنی پیشکش کی تھی، اور ہندوستان کے باہر رقص پیش کرنے والی پہلی ٹولی تھی۔ تب سے، اس طرز نے  دنیا کے کئی کونوں میں اپنی موجودگی درج کرائی ہے۔

حالانکہ، چھاؤ کی عالمی شناخت کے باوجود ان مشہور مکھوٹوں کو بنانے والے کاریگروں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ ’’مقامی لوگ اب سیکھنا نہیں چاہتے،‘‘ دلیپ کہتے ہیں۔ ان کی آواز میں اداسی اس ہنر کے لیے ہے جو اب مٹی کی بنی ڈور کے سہارے ٹکی ہوئی ہے۔

*****

آنگن میں بیٹھے دلیپ اپنے اوزاروں کو انتہائی احتیاط سے منظم کرتے ہیں اور پھر لکڑی کے ایک فریم پر چکنی مٹی رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’مکھوٹوں کی پیمائش کرنے اور تین حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے ہم اپنی انگلیوں کا استعمال کرتے ہیں – ایک آنکھوں کے لیے، ایک ناک کے لیے، اور ایک منہ کے لیے۔‘‘

’سرائے کیلا ہر طرح کے چھاؤ رقصوں کی ماں ہے۔ […] یہ میری روایت ہے۔ جب تک زندہ ہوں، اس روایت کو زندہ رکھوں گا۔‘

دیکھیں: سرائے کیلا چھاؤ مکھوٹے بنانے کا عمل

اپنے ہاتھوں کو پانی سے گیلا کر کے، وہ نو رس (نو جذبات) کے مطابق مکھوٹوں کوشکل دینا شروع کرتے ہیں – شرنگار (محبت/خوبصورتی)، ہاسیہ (ہنسی)، کرونا (دکھ)، رودر (غصہ)، ویر (بہادری/ہمت)، بھیانک (دہشت/خوف)، ویبھتس (نفرت)، ادبھت اور شانت۔

چھاؤ کی تمام طرزوں میں سے صرف سرائے کیلا اور پرولیہ چھاؤ میں مکھوٹے کا استعمال ہوتا ہے۔ ’’سرائے کیلا چھاؤ کی روح اس کے مکھوٹوں میں موجود ہوتی ہے؛ ان کے بغیر چھاؤ نہیں ہو سکتا،‘‘ دلیپ کہتے ہیں۔ مٹی کو شکل و صورت فراہم کرنے کے لیے ان کے ہاتھ تیزی سے چل رہے ہیں۔

مٹی کا مکھوٹا جب بن کر تیار ہو جاتا ہے، تو دلیپ اس پر راکھ (گائے کے گوبر کے اُپلے کی راکھ) چھڑکتے ہیں، تاکہ سانچے کو مکھوٹے سے آسانی سے الگ کیا جا سکے۔ اس کے بعد وہ لیئی (آٹے سے بنا گوند) سے کاغذ کی چھ پرتیں چپکا دیتے ہیں۔ پھر مکھوٹے کو دو تین دنوں تک دھوپ میں سُکھایا جاتا ہے اور پھر بلیڈ سے احتیاط کے ساتھ ہٹایا جاتا ہے اور درستگی کے ساتھ انہیں پینٹ کیا جاتا ہے۔ دلیپ فخر سے کہتے ہیں، ’’سرائے کیلا مکھوٹا دیکھنے میں انتہائی خوبصورت لگتے ہیں۔‘‘ وہ اس علاقہ کے تقریباً ۵۰ گاؤوں میں مکھوٹے مہیا کراتے ہیں۔

پہلے کے زمانے میں مکھوٹوں کو رنگنے کے لیے پھولوں، پتیوں اور ندی کی سطح میں پائے جانے والے پتھروں سے بنے قدرتی رنگوں کا استعمال کیا جاتا تھا، لیکن اب مصنوعی رنگوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

دلیپ مکھوٹے کی پیمائش کرنے ااور تین حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے اپنی انگلیوں (بائیں) کا استعمال کرتے ہیں – ’ایک آنکھوں کے لیے، ایک ناک کے لیے، اور ایک منہ کے لیے۔‘ لکڑی کے اوزار (دائیں) سے وہ الگ الگ جذبات کے حساب سے الگ الگ شکلوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے آنکھیں بناتے ہیں

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: جب مٹی کا مکھوٹا بن کر تیار ہو جاتا ہے، تو دلیپ اس پر راکھ (گائے کے گوبر کے اُپلے کی راکھ) چھڑکتے ہیں، تاکہ سانچے کو مکھوٹے سے آسانی سے الگ کیا جا سکے۔ اس کے بعد وہ لیئی (آٹے سے بنا گوند) سے کاغذ کی چھ پرتیں چپکا دیتے ہیں۔ پھر مکھوٹے کو دو تین دنوں تک دھوپ میں سُکھایا جاتا ہے اور پھر بلیڈ سے احتیاط کے ساتھ ہٹایا جاتا ہے اور درستگی کے ساتھ انہیں پینٹ کیا جاتا ہے۔ دائیں: دلیپ، سرائے کیلا مکھوٹے بنانے والے آخری فنکاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ انہیں انتہائی سلیقے سے پینٹ کرتے ہیں، اور جس جذبے کے اظہار کے لیے مکھوٹا بنایا گیا ہے اس کی بنیاد پر آنکھوں، ہونٹوں اور گالوں کو شکل فراہم کرتے ہیں

*****

تقریباً ۵۰ سالوں سے بھی زیادہ عرصے سے چھاؤ کی پیشکش کرنے والے تپن کہتے ہیں، ’’ایک بار جب فنکار مکھوٹا پہن لیتا ہے، تو وہ کردار میں ڈھل جاتا ہے۔ اگر آپ راکھا کا کردار ادا کر رہے ہیں، تو آپ کو رادھا کی عمر اور شکل و صورت کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ شاستروں کے مطابق، وہ کافی خوبصورت تھیں۔ اس لیے، ہم ان کا مکھوٹا بناتے وقت ہونٹوں اور گالوں کی خصوصیت کا خیال رکھتے ہیں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مکھوٹا ان کے جیسا خوبصورت دکھائی دے۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’جب آپ مکھوٹا پہن لیتے ہیں، تو آپ کو اپنے جسم اور گردن کی حرکتوں کے ذریعے جذبات کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔‘‘ رقص کرنے والے کا جسم دو حصوں میں بنٹا ہوتا ہے: ’اَنگ‘ (گردن کے نیچے کا حصہ) اور ’اُپانگ‘ (سر)۔ ’اُپانگ‘ میں آنکھیں، ناک، کان اور منہ شامل ہیں، جو مکھوٹے سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ فنکار جسم کے اوپری اور نچلے، دونوں حصوں سے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔

اس لیے جب کوئی رقاص مکھوٹا پہنتا ہے اور رونے کا اظہار کرنا چاہتا ہے، تو مکھوٹے کی وجہ سے چہرے کے جذبات دکھائی نہیں دیتے۔ پاری کو بتانے کے لیے کہ اس بات کا کیا مطلب ہے، تپن اپنی گردن کو بائیں طرف جھکا دیتے ہیں، پھر دونوں مٹھیوں کو اپنے چہرے کے قریب لاتے ہیں اور اپنے سر اور جسم کے اوپری حصے کو بائیں طرف جھکاتے ہیں، جیسے کہ کوئی تکلیف میں ہو اور اداس ہو کر کہیں دور دیکھ رہا ہو۔

لوک کتھاؤں کے مطابق، فنکار پرفارم کرتے وقت لوگوں کے سامنے رقص کرنے میں شرم محسوس کرتے تھے اور اپنے چہرے کو ڈھکنے کے لیے یہ مکھوٹے پہنتے تھے۔ تپن بتاتے ہیں، ’’اس طرح مکھوٹا پری کانڈا [مارشل آرٹ] میں آیا۔‘‘ پہلے مکھوٹے کے لیے بانس کی ٹوکریاں استعمال ہوتی تھیں، جن میں آنکھوں کے لیے سوراخ بنے ہوتے تھے۔ اب جب کہ کافی ترقی ہو گئی ہے، دلیپ بتاتے ہیں کہ جب وہ بچے تھے، تو کدو سے مکھوٹے بناتے تھے۔

آغاز سے متعلق ایک اور کہانی چھاؤ کے چھاؤنی یا فوجی کیمپوں سے رشتوں کے بارے میں ہے، اس طرح اس میں شامل مارشل آرٹ جیسی سرگرمیوں کا پتہ ملتا ہے۔ لیکن تپن عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہیں: ’’چھاؤ کا آغاز چھایا [سایہ] سے ہوا ہے۔‘‘ وہ سمجھاتے ہیں کہ فنکار اپنے ذریعے پرفارم کیے جانے والے اداکاروں کے سایہ کی طرح ہوتے ہیں۔

یہ رقص روایتی طور پر مردوں کے ذریعے کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ، حالیہ برسوں میں، کچھ عورتیں چھاؤ ٹولی میں شامل ہوئی ہیں، لیکن سرائے کیلا میں یہ پیشکش اب بھی زیادہ تر مردوں کے ذریعے ہی کی جاتی ہے۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: دلیپ کے گھر کے برآمدے میں ایک طرف رکھے سرائے کیلا مکھوٹے، جو نو جذبات (نو رس) کو دکھاتے ہیں – شرنگار، ہاسیہ، کرونا، رودر، ویر، بھیانک، ویبھتس، ادبھت اور شانت۔ یہی بات انہیں انوکھا بناتی ہے۔ دائیں: دلیپ اپنے بنائے کچھ مشہور مکھوٹوں اور اپنے ذریعہ منعقد ورکشاپوں کی کچھ پرانی تصویریں دکھا رہے ہیں

مکھوٹا بنانے کے معاملے میں بھی یہی سچ ہے۔ ’’چھاؤ میں عورتیں نہیں…یہی روایت چلی آ رہی ہے، مکھوٹا بنانے کا سارا کام ہم خود کرتے ہیں،‘‘ دلیپ کہتے ہیں اور مزید بتاتے ہیں، ’’جب میرا بیٹا یہاں ہوتا ہے، تو میری مدد کرتا ہے۔‘‘

ان کے بیٹے دیپک نے اپنے والد سے مکھوٹا بنانا سیکھا تھا۔ لیکن ۲۵ سالہ دیپک اب دھنباد چلا گیا ہے، جہاں وہ ایک آئی ٹی فرم میں کام کرتا ہے اور مکھوٹا بنانے کے کام کے مقابلے کہیں زیادہ کماتا ہے۔

حالانکہ، جب مورتیاں بنانے کی بات آتی ہے، تو اس کام میں پوری فیملی لگ جاتی ہے۔ دلیپ کی بیوی سنیُکتا بتاتی ہیں کہ جب مورتیاں بنانے کی بات آتی ہے، تو وہ سارا کام کرتی ہیں۔ ’’سانچہ بناتے ہیں، مٹی تیار کرتے ہیں، پینٹنگ بھی کرتے ہیں۔ لیکن مکھوٹا میں عورتیں کچھ نہیں کرتی ہیں۔‘‘

سال ۲۰۲۳ میں، دلیپ نے ۷۰۰-۵۰۰ مکھوٹے بنائے، جس سے انہیں تقریباً ایک لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی اور انہوں نے پورے سال پینٹ، برش اور کپڑے پر ۳۰۰۰ سے ۴۰۰۰ روپے خرچ کیے تھے۔ وہ اسے اپنا ’’جز وقتی کام‘‘ کہتے ہیں اور اب ان کا بنیادی کام مورتیاں بنانا ہے، جس سے وہ سال میں تین سے چار لاکھ کماتے ہیں۔

وہ چھاؤ رقص کے تمام مراکز کے لیے کمیشن پر مکھوٹے بناتے ہیں اور چیتر میلہ میں بھی بیچتے ہیں، جو ہر سال اپریل میں چیتر تہوار یا وسنت اُتسو کے موقع پر لگتا ہے۔ یہ سرائے کیلا چھاؤ کیلنڈر کا ایک اہم واقعہ تصور کیا جاتا ہے، اور دنیا بھر سے سیاح اس میں شامل ہونے کے لیے آتے ہیں۔ بڑے مکھوٹے ۳۰۰-۲۵۰ روپے میں فروخت ہوتے ہیں، جب کہ چھوٹے مکھوٹے کی قیمت سو روپے کے آس پاس ہوتی ہے۔

دلیپ نے یہ کام پیسوں کی وجہ سے نہیں جاری رکھا ہوا ہے۔ ’’یہ میری روایت ہے۔ جب تک زندہ ہوں، اس روایت کو زندہ رکھوں گا۔‘‘

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Ashwini Kumar Shukla

Ashwini Kumar Shukla is a freelance journalist based in Jharkhand and a graduate of the Indian Institute of Mass Communication (2018-2019), New Delhi. He is a PARI-MMF fellow for 2023.

Other stories by Ashwini Kumar Shukla
Editor : PARI Desk

PARI Desk is the nerve centre of our editorial work. The team works with reporters, researchers, photographers, filmmakers and translators located across the country. The Desk supports and manages the production and publication of text, video, audio and research reports published by PARI.

Other stories by PARI Desk
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique