ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے جو باریکی سے بنی کمل کوش چٹائیوں کی قدر کر سکتے ہوں۔

اور ایسے لوگوں کی تعداد اور بھی کم ہے جو انہیں بُن سکتے ہوں۔

مغربی بنگال کے کوچ بہار ضلع میں تیار کی جانے والی ان چٹائیوں پر بنے ثقافتی نقش انہیں دیگر چٹائیوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہ انتہائی تفصیلی نقش اسٹارچ شدہ بید کی باریک پٹیوں سے ابھارے جاتے ہیں۔

پربھاتی دھر کہتی ہیں، ’’روایتی کمل کوش کو کولا گاچھ [کیلے کے درخت]، میور [مور]، منگل گھٹ [گھڑا جس پر ناریل رکھا ہوتا ہے]، سواستیک [خوشحالی کی علامت] جیسے نیک شگون والے نقشوں سے مزین کیا جاتا ہے۔‘‘

پربھاتی کمل کوش کے ان معدوے چند دستکاروں میں سے ایک ہیں، جو بید کی ان پٹیوں سے چٹائی بُن سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ کام ۱۰ سال کی چھوٹی عمر میں ہی شروع کر دیا تھا۔ ’’اس گاؤں [گھیگیر گھاٹ] میں ہر شخص چھوٹی عمر سے ہی چٹائیاں بُننا شروع کر دیتا ہے،‘‘ کم عمری میں ذہنی پختگی کے کسی بھی خیال کومسترد کرتے ہوئے ۳۶ سالہ خاتون کہتی ہیں۔ ’’میری والدہ کمل کوش کو صرف ٹکڑوں میں ہی بُن سکتی تھیں، لیکن میرے والد کو ڈیزائن پر اچھی دسترس حاصل تھی اور وہ اچھی طرح سمجھاتے ہوئے کہتے، ’اس ڈیزائن کو اس طرح بُننے کی کوشش کرو‘۔‘‘ اگرچہ وہ خود بُنائی نہیں کر سکتے تھے، لیکن پربھاتی کا خیال ہے کہ انہوں نے والد کی تفصیلی وضاحتوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

ہم گھیگیر گھاٹ میں ان کے گھر کے برآمدے میں بیٹھے ہیں۔ اس خطہ کے زیادہ تر دستکار چھت والے برآمدے ہی میں کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پربھاتی کا پورا کنبہ ان کے ارد گرد موجود ہے، اور اس ہنر سے منسلک مختلف کاموں میں ان کی مدد کر رہا ہے۔ چٹائی کے اندر کی پٹیوں کی لچھوں سے شکلوں کی اصل بنائی اور ان کے ڈیزائن پربھاتی نے تیار کیے ہیں۔ ’’یہ کام ہم اپنی یادداشت کے سہارے کرنے کے عادی ہیں،‘‘ وہ اپنے ڈیزائن بنانے کے عمل کے بارے میں کہتی ہیں۔

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

پربھاتی دھر مغربی بنگال کے کوچ بہار ضلع کے معدودے چند لوگوں میں شامل ہیں جو کمل کوش بُن سکتے ہیں۔ گھیگیر گھاٹ گاؤں میں ان کے گھر کا برآمدہ اور صحن، جہاں وہ اپنے کنبہ کے ساتھ بید کی چٹائیاں بنتی ہیں

PHOTO • Shreya Kanoi

پربھاتی اور ان  کے شوہر منورنجن تیار چٹائی دکھا رہے ہیں

کرشن چندر بھومک نزدیکی قصبے ڈَھلیا باڑی کے ایک تاجر ہیں، جو اکثر پربھاتی کو کمل کوش بنانے کا آرڈر دیتے ہیں۔ ’’کمل کوش ہولو ایکٹی شوکین جنیش [کمل کوش ایک ایسی چیز ہے جس کی قدر کوئی شوقین آدمی ہی کرے گا]۔ اچھی پاٹی کی قدر و قیمت کو صرف کوئی بنگالی شخص ہی سمجھ سکتا ہے۔ اسی لیے وہ اعلیٰ درجے کی چٹائیوں کے اہم خریدار ہوتے ہیں،‘‘ وہ پاری کو بتاتے ہیں۔

دھر کنبہ گھیگیر گھاٹ گاؤں میں رہتا ہے۔ یہ گاؤں تقریباً پوری طرح سے دستکاروں کی آبادی پر مشتمل ہے۔ دراصل پورے کوچ بہار-۱ بلاک کا یہی عالم ہے۔ یہ پاٹی بُننے والے دستکار ہیں، جن کی جڑیں بنگلہ دیش سے جڑی ہوئی ہیں۔ وہ جس جگہ سے آئے ہیں، وہاں کا مخصوص انداز ان کی دستکاری میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے، جو جلد ہی منظرعام پر آئے گی۔

چٹائیوں کی درجہ بندی عام طور پر پاٹی (پٹّی) کی بنائی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ان میں موٹا پاٹی (موٹی چٹائی) سے لے کر بہترین اور نایاب کمل کوش تک شامل ہوتی ہیں۔ بید (شومانتھیس ڈائی کوٹمس) مغربی بنگال کے کوچ بہار علاقہ کی ایک مقامی نوع ہے۔

کمل کوش چٹائیاں بنانے کے لیے بید کی سب سے باہری تہہ کو بڑے احتیاط سے پتلی پٹیوں کی شکل میں چیر کر نکالا جاتا ہے، جسے بیٹ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے اسٹارچ میں ابال کر اس کی چمک اور سفیدی میں اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ ان پر بہتر طریقے سے رنگ چڑھایا جا سکے۔

تیاری کا ابتدائی نازک کام ان کے شوہر منورنجن دھر کرتے ہیں۔ انہیں یاد ہے کہ کیسے اپنی شادی کے بعد انہوں نے بطور نئی دلہن اپنے شوہر سے کہا کہ تھا کہ وہ عمدہ چٹائیاں بُن سکتی ہیں، لیکن اس کے لیے مناسب خام مال کی ضرورت ہے اور ’’میرے شوہر نے آہستہ آہستہ کمل کوش بُننے کے لیے درکار بید کی باریک پٹیاں چیرنا سیکھ لیا۔‘‘

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

بائیں: ایک تازہ تیار شدہ سیتل پاٹی پربھاتی کے رنگ کاری والے شیڈ کی دیوار کے سہارے لگا کر رکھی گئی ہے۔ اس کے بغل میں بید کے تازہ کٹے ہوئے ڈنٹھلوں کے گچھے رکھے ہوئے ہیں، جنہیں ’پاٹی بیٹ‘ کہتے ہیں اور جن کا استعمال چٹائیاں بُننے میں کیا جاتا ہے۔ دائیں: ابالنے اور رنگنے جیسے عمل کے لیے بنائی جانے والی بید کی پٹیوں کا بنڈل

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

پربھاتی کمل کوش کے لیے اسٹارچ شدہ بید کی پٹیوں کو مطلوبہ رنگوں میں رنگتی ہیں (بائیں) اور پھر انہیں خشک کرنے کے لیے باہر چھوڑ دیتی ہے (دائیں)

جب پربھاتی ہم سے بات کرتی ہیں تو ہماری نگاہیں ان کے ہاتھوں پر مرکوز رہتی ہیں۔ وہاں جو دوسری آواز سنائی دے رہی ہے وہ ہے ان کے ہنرمند ہاتھوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی بید کی پٹیوں کی سرسراہٹ کی آواز۔ یہ پاس پاس بنے گھروں کا ایک پُرسکون محلہ ہے، جہاں سے کبھی کبھار کوئی موٹر گاڑی گزر جاتی ہے۔ گھر کے چاروں طرف کیلے اور سپاری کے درخت لگے ہوئے ہیں۔ سات فٹ لمبی بید کی گھنی جھاڑیاں گھر سے ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔

اپنے ہنر میں ماہر دستکار پیمائش کا روایتی طریقہ استعمال کرتی ہیں: ’ایک ہاتھ‘ تقریباً ۱۸ انچ کا ہوتا ہے، جو کہنی سے انگلیوں تک کی لمبائی ہوتی ہے۔ ڈھائی ہاتھ چوڑی اور چار ہاتھ لمبی چٹائی کی پیمائش تقریباً چار ضرب چھ فٹ کی ہوگی۔

پربھاتی اپنا کام روک کر اپنے موبائل کی تصویروں کو ادھر ادھر کرتی ہیں اور کمل کوش کی کچھ چٹائیاں دکھاتی ہیں، جنہیں انہوں نے اپنے گاہکوں کے لیے بنائی ہیں۔ ’’کمل کوش چٹائیاں صرف آرڈر پر بنتی ہیں۔ جب مقامی تاجر آرڈر دیتے ہیں، تو ہم انہیں بُنتے ہیں۔ یہ خاص چٹائیاں ہاٹ [ہفتہ وار بازار] میں نہیں فروخت ہوتی ہیں۔‘‘

حالیہ دنوں میں کمل کوش چٹائیوں پر اپنا نام اور تاریخ بنوانے کا رجحان عام ہو رہا ہے۔ ’’شادیوں کے لیے گاہک ہم سے چٹائیوں پر نئے جوڑے کے نام بنوانے کی درخواست کرتے ہیں۔ وجیہ دشمی کے موقع پر ’شبھو بیجویا‘ جیسے مبارک بادی کلمات بنوانے کا رواج بھی زور پکڑ رہا ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ خاص چٹائیاں شادیوں یا تہواروں جیسے مواقع پر نکالی جاتی ہیں۔ ’’بنگلہ کے مقابلے انگریزی رسم الخط میں الفاظ بننا آسان ہوتا ہے،‘‘ پربھاتی نشاندہی کرتی ہیں کہ بنگلہ زبان کے منحنی خطوط چیلنج کی طرح ہیں۔

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

شادی شدہ جوڑے کو تحفے کے طور پر دی گئی چٹائی جس پر ان کے نام بنے گئے ہیں اور خوشی کے موقع کو ظاہر کرنے کے لیے موروں کی تصویر بنائی گئی ہے

PHOTO • Shreya Kanoi

گُھگھومری، کوچ بہار کے پاٹی میوزیم میں رکھی گئی ایک کمل کوش

یہ ایک نادر مہارت ہے، جس کی گواہی کوچ بہار-۱ بلاک کے پاٹی شلپا سمابے سمیتی کے سکریٹری پردیپ کمار رائے دیتے ہیں۔ وہ خود ایک دستکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’پورے کوچ بہار ضلع میں تقریباً ۱۰ ہزار چٹائی بُننے والے موجود ہیں۔ تاہم ان میں سے بمشکل ۱۰ سے ۱۲ ایسے ہوں گے جو نایاب کمل کوش کی بُنائی کر سکتے ہوں۔‘‘

اس سمیتی (تنظیم) کا قیام ۱۹۹۲ میں عمل میں آیا تھا اور اس کے زیر نگیں۳۰۰ دستکار ہیں۔ یہ علاقے کے چٹائی دستکاروں کی اولین کوآپریٹو سوسائٹی ہے اور گُھگھومری میں دو ہفتہ وار پاٹی ہاٹ (ہفتہ وار چٹائی بازار) کا انعقاد کرتی ہے۔ یہ ہاٹ کوچ بہار کے علاقہ میں چٹائیوں کے لیے وقف واحد چٹائی بازار ہے جہاں ہاٹ کے دن تقریباً ۱۰۰۰ دستکار اور تقریباً ۱۰۰ تاجر جمع ہوتے ہیں۔

پربھاتی اس علاقے میں کمل کوش بنانے والے آخری چند دستکاروں میں سے ایک ہیں، اور وہ اس ذمہ داری کو سنجیدگی سے نبھا رہی ہیں۔ ’’میری ماں روزانہ بنائی کرتی ہیں، ایک دن کی بھی چھٹی نہیں لیتی ہیں۔ صرف انہیں صورتوں میں چھٹی لیتی ہیں جب ہمیں کسی کام کے لیے باہر جانا ہوتا ہے، یا نانا کے گھر جانا ہوتا ہے،‘‘ ان کی بیٹی مندیرا کہتی ہیں، جنہوں نے صرف پانچ سال کی عمر سے ہی ماں کو دیکھ دیکھ کر اس فن میں مہارت حاصل کر لی ہے۔

پربھاتی اور منورنجن کے دو بچے ہیں: ۱۵سالہ مندرا اور سات سالہ پیوش (جنہیں وہ پیار سے تُوجو بلاتے ہیں)۔ وہ دونوں اسکول کے اوقات کے بعد کافی تندہی سے اس ہنر کو سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مندرا پربھاتی کے والدین کے ساتھ رہتی ہیں اور اپنی ماں کی مدد کے لیے ہفتہ میں دو بار گھر آتی ہیں۔ چاق چوبند  توجو بھی اس فن کے ایک سنجیدہ طالب علم ہیں، اور بُنائی کے لیے بید کی پٹیوں کو خلوص کے ساتھ تیار کرتے ہیں۔ جب آس پاس کے دوست کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں، تو وہ کام میں مصروف ہوتے ہیں۔

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

بائیں: ماں پربھاتی اور ان کی بیٹی مندرا صبح کے وقت ایک ساتھ بنائی کر رہی ہیں۔ یہ ان کی عادت میں شامل ہے۔ بیٹے پیوش بید کے ڈنڈوں کو چیر رہے ہیں، اس عمل کو بیٹ شولائی کہتے ہیں۔ ان کے دوست کام ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ کرکٹ کھیل سکیں

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

بائیں: محلے کے بچے پربھاتی کے گھر میں کہانیاں سنانے والی چٹائی بننا سیکھنے کے لیے جمع ہوجاتے ہیں۔ گیتانجلی بھومک، انکیتا داس اور مندرا دھر (بائیں سے دائیں) چٹائی کا کنارہ بُن کر پربھاتی کی مدد کر رہی ہیں۔ دائیں: پربھاتی کا پاٹی بُننے والا کنبہ: شوہر منورنجن دھر، بیٹا پیوش دھر؛ بیٹی مندرا دھر، پربھاتی دھر اور ان کی پڑوسن انکیتا داس

محلہ کے بچوں کو پربھاتی کا ہنر سیکھنے کا جو بھی موقع ملتا ہے وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان سے سیکھنے کی ضد کرتے ہیں: ’’میری پڑوسن کی بیٹی نے مجھ سے کہا، ’کاکی [چچی]، مجھے بھی سکھائیے!‘‘ تعطیلات اور اختتام ہفتہ کے دوران ان کا گھر ایک تخلیقی مقام میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ’’وہ موروں اور درختوں کے نقش بنانا سیکھنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ تاہم، وہ اس فن کو فوراً نہیں سیکھ سکتے۔ لہٰذا، میں ان سے چٹائی کے کناروں کو مکمل کرنے کو کہتی ہوں، اور نقش اربھاتے وقت میرا مشاہدہ کرنے کو کہتی ہوں۔ آہستہ آہستہ میں انہیں سکھا دوں گی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

اگرچہ مندرا کمل کوش بُننا سیکھ رہی ہیں، لیکن وہ ایک ایسا پیشہ منتخب کرنا چاہتی ہیں جس میں زیادہ معاوضہ ہو اور زیادہ وقت ملے۔ ’’شاید میں نرسنگ کی ٹریننگ حاصل کروں گی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’چٹائی بُننے میں محنت بھی بہت لگتی ہے۔ اگر کوئی [دوسری] نوکری کرتا ہے، تو وہ بیٹھ سکتا ہے، آرام کر سکتا ہے اور کما سکتا ہے۔ اسے ہر وقت محنت نہیں کرنی پڑتی۔ اس لیے [میری نسل کا] کوئی بھی بچہ چٹائی بُننا نہیں چاہتا۔‘‘

اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ اپنی ماں کا نظام الاوقات بتاتی ہیں: ’’میری والدہ روزانہ صبح ساڑھے پانچ بجے اٹھتی ہیں، جھاڑو دیتی ہیں اور گھر کی صفائی کرتی ہیں۔ اس کے بعد ایک گھنٹے تک چٹائی بُنتی ہیں۔ چونکہ ہم صبح بھی کھانا کھاتے ہیں اس لیے ہمارے لیے کھانا بھی بناتی ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد وہ دوپہر تک بنائی کرتی ہیں۔ پھر نہانے کے لیے ایک وقفہ لیتی ہیں۔ اس کے بعد پھر گھر میں جھاڑو لگاتی ہیں، اور دوپہر کو چٹائی بُننے بیٹھ جاتی ہیں۔ رات ۹ بجے تک بُنائی کرتی رہتی ہیں۔ اس کے بعد کھانا پکاتی ہیں، ہم کھاتے ہیں، اور سو جاتے ہیں۔‘‘

’’میرے والدین میلوں میں نہیں جاتے کیونکہ گھر میں بہت کام ہوتا ہے۔ ہمیں ہر روز ایک پاٹی تیار کرنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے، تب کہیں جاکر ہم اپنے روزمرہ کے اخراجات کے لیے ضروری پورے کنبے کی ماہانہ آمدنی ۱۵۰۰۰ روپے حاصل کر پاتے ہے،‘‘ مندیرا کہتی ہیں۔

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

بُنائی کے علاوہ پربھاتی اپنے گھر اور کنبے کا بھی خیال رکھتی ہیں

*****

پاٹی بنانے کے عمل کو مقامی طور پر سَمشٹی گت کاج کہا جاتا ہے، یعنی کنبے اور برادری کا اجتماعی کام۔ ’’اِیٹا اَمادیر پاٹی شِلپیر کاج ٹا ایکوک بھابے ہوئے نا۔ ٹاکا جوڑتے گیلے شوبائی کے ہاتھ دیتے ہوئے [چٹائی بُننے کا ہمارا پیشہ تنہائی میں نہیں ہوتا۔ مہینے کے آخر میں ایک معقول آمدنی حاصل کرنے کے لیے سب کو ساتھ آنا پڑتا ہے]،‘‘ پربھاتی کہتی ہیں جو خام مواد کی ابتدائی تیاری کے لیے اپنے اہل خانہ پر منحصر ہیں۔

کام کو ’’ ماٹھیر کاج [باہر کا کام] اور باڑیر کاج [گھر کے اندر کا کام]‘‘ میں تقسیم کیا گیا ہے،‘‘ کنچن ڈے کہتے ہیں، جن کا تعلق ایک دستکار کنبے سے ہے اور اس ہنر کی ماہر بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح مرد بید کے پودوں کی کٹائی کرتے ہیں، اسے چیر کر بنائی کے لیے لچکدار پٹیاں نکالتے ہیں، جبکہ عورتیں ان پٹیوں کو اسٹارچ میں ابال کر خشک کرتی ہیں اور چٹائی بُنتی ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹے بچے بھی کاموں کی صنفی تقسیم کو اپناتے ہیں: لڑکیاں بُنائی دیکھنے آتی ہیں، جبکہ لڑکے بید کی پٹیاں نکالنے میں اپنا ہاتھ آزماتے ہیں۔ کنچن ڈے پڑوسی گاؤں گانگلر کٹھی کے اسکول ماسٹر ہیں۔

چھ ضرب سات فٹ کے معیاری سائز کی ایک پاٹی [چٹائی] تیار کرنے کے لیے بید کے ۱۶۰ ڈنڈوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ڈنڈوں کو تراش کر لچکدار پٹیاں تیار کرنے میں دو دن کا وقت لگتا ہے۔ یہ کام مردوں کے ذمہ ہوتا ہے۔ یہ دو جہتی عمل ہوتا ہے جسے بیٹ شولائی اور بیٹ ٹولا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کام میں بید کے تنے سے ایک سے زیادہ تراشے نکالنا اور اندرونی گودوں کو ہٹانا، اور پھر ہر پٹی کو بڑے احتیاط سے ۲ ملی میٹر سے ۵ء۰  ملی میٹر کی موٹائی میں تقسیم کرنا شامل ہوتا ہے۔ پٹیوں کی تقیسم کا یہ عمل پیچیدہ ہوتا ہے، جس کے لیے ہنرمند اور تجربہ کار ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

منورنجن دھر اپنے کھیت میں بید کی کٹائی کر رہے ہیں (بائیں)۔ وہ اپنے بیٹے پیوش (دائیں) کے ساتھ بید کی پٹی تیار کر رہے ہیں۔ پیوش بیٹ شولائی کر رہے ہیں جو کہ بید کے ڈنٹھل کو ایک سے زیادہ ٹکڑوں میں چیر کر اندر کے گودے کو ہٹانے کا بنیادی عمل ہے۔ منورنجن بیٹ ٹولا کا کام کر رہے ہیں اور موجودہ پٹی سے آخری باریک پٹیاں نکال رہے ہیں جو تین تہوں پر مشتمل ہے: بیٹ، بوکا اور چھوٹو۔ آخر میں بید کی پٹیوں میں صرف بید بچتی ہے جو سب سے اوپر کی تہہ ہوتی ہے

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

منورنجن تیار چٹائی (بائیں) کی جانچ کر رہے ہیں اور بُنائی کے بعد اسے خشک کر رہے ہیں (دائیں)۔ پاٹی بنانے کے عمل میں کنبے اور برادری کی اجتماعی کوششیں شامل ہوتی ہیں۔ ’مہینے کے آخر میں معقول آمدنی حاصل کرنے کے لیے ہر ایک کو اس میں شامل ہونا پڑتا ہے،‘ پربھاتی کہتی ہیں جو خام مواد کی تیاری کے لیے اپنے کنبے پر منحصر ہیں

’’اگرچہ عام چٹائیوں میں بید کی پٹیوں کے قدرتی رنگ کا استعمال ہوتا ہے، لیکن کمل کوش کو عام طور پر دو رنگوں میں بُنا جاتا ہے،‘‘ پاربھتی کہتی ہیں، جنہیں گھنٹوں اکڑو بیٹھ کر اور بعض اوقات سہارے کے لیے لکڑی کی پیری (چھوٹے اسٹول) کا استعمال کرتے ہوئے بنائی کرتی پڑتی ہے۔ بُنے جا چکے حصوں کے کناروں کو ابھرنے سے بچانے کے لیے اپنے پیروں سے دباتی ہیں، اور بنائی کے نمونوں کے مطابق بید کی پٹیوں کے گچھے کو ایک خاص تعداد میں اٹھانے کے لیے دونوں ہاتھوں کا استعمال کرتی ہیں۔

وہ ایک وقت میں بید کی تقریباً ۷۰ پٹیوں کو اوپر نیچے کرتی ہیں۔ چٹائی کی ہر مکمل لائن کے لیے پربھاتی کو تقریباً ۶۰۰ پٹیوں میں سے ہر ایک پٹی کو اوپر اور نیچے باندھنا پڑتا ہے۔ پٹیوں کو اٹھانے کے لیے ان کے ہاتھوں کے علاوہ کوئی اور طریقہ کار نہیں ہوتا ہے۔ چھ ضرب سات فٹ کی چٹائی بُننے کے لیے انہیں اس عمل کو تقریباً ۷۰۰ بار دہرانا پڑتا ہے۔

پربھاتی کہتی ہیں کہ ایک کمل کوش کو بُن کر تیار کرنے میں صرف ہونے والے وقت میں، ۱۰ عام چٹائیاں بنائی جا سکتی ہیں۔ اس لیے دونوں کی قیمتوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔ ’’کمل کوش بنانا زیادہ مشکل کام ہے، لیکن اس کی زیادہ قیمت بھی ملتی ہے۔‘‘ جب کمل کوش کے آرڈر کم ہوتے ہیں تو پربھاتی بھی عام چٹائیاں بُنتی ہیں۔ دراصل ان کا کہنا ہے کہ سال میں عام چٹائیاں زیادہ بُنتی ہیں، کیونکہ ان کی بنائی تیزی سے ہو جاتی ہے۔

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

چٹائی کے قریبی معائنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بید کی پٹیوں کا استعمال کرتے ہوئے نمونوں اور شکلوں کو آپس میں کیسے جوڑا گیا ہے۔ بید کی پٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ عمودی اور افقی طور پر گزرتی ہوئی چٹائی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک کا سفر کرتی نظر آتی ہیں۔ اس بُنائی کی یہی خوبصوریی ہے کہ اسے حصوں میں بُنا جاتا ہے نہ کہ لکیری شکل میں۔ منورنجن (دائیں) چٹائی کو سیدھا کرنے کے لیے پہلے ایک طرف اور پھر دوسری طرف سے موڑتے ہیں

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

سیتل پاٹی بنائی کے لیے ضروری چیزیں (بائیں سے دائیں) پیری یا لکڑی کا چھوٹا اسٹول بیٹھنے کے لیے؛ داو یا بوٹی، بید کے ڈنڈوں کو چیرنے اور ان کی پٹیاں بنانے کے لیے استعمال ہونے والا ہتھیار؛ بیٹ کاٹا، بید کی کٹائی کے لئے استعمال ہوتا ہے؛ چُھری، جب چٹائی کی بنائی مکمل ہو جاتی ہے تو اس کے ابھرے ہوئے کناروں کو حتمی شکل دینے کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہے۔ تاجر کو دینے کے لیے تیار اور تہہ کی ہوئی کمل کوش پاٹی کے ساتھ پربھاتی

سادہ لوح پربھاتی کا کہنا ہے کہ وہ ایک ماں کے طور پر اپنے کردار اور ایک کمل کوش دستکار کے طور پر اپنی ساکھ سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ ’’مجھ میں کمل کوش بنانے کی صلاحیت ہے، اسی لیے میں انہیں بناتی ہوں۔ آمی گرب بودھ کوری [مجھے فخر کا احساس ہوتا ہے]۔‘‘

تھوڑی توقف کے بعد، وہ مزید کہتی ہیں، ’’دوسرے بہت سے دستکار اسے نہیں بُن سکتے۔ میں یہ نایاب چٹائی بُن سکتی ہوں اسی لیے آپ میرے پاس آئی ہیں، ہے نا؟ آپ کسی اور کے پاس نہیں گئیں!‘‘

اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی ایک فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Shreya Kanoi

Shreya Kanoi is a design researcher working at the intersection of crafts and livelihood. She is a 2023 PARI-MMF fellow.

Other stories by Shreya Kanoi
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam