’’کاغذ پر یہاں بُنکروں کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن میرے مرنے کے بعد یہاں [عملی طور پر] سب کچھ ختم ہو جائے گا،‘‘ روپ چند دیب ناتھ اپنی بانس کی جھونپڑی میں نصب ہتھ کرگھے پر کام سے وقفہ لیتے ہوئے آہ بھرتے ہیں۔ ان کی جھونپڑی کی زیادہ تر جگہ کرگھے نے لے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ ردی کے ڈھیر ہیں، جن میں دیگر چیزوں کے علاوہ ٹوٹے ہوئے فرنیچر، دھات کے پرزے اور بانس کے ٹکڑے شامل ہیں۔ یہاں ایک سے زیادہ افراد کے لیے بمشکل کوئی گنجائش ہے۔

روپ چند (۷۳) ہندوستان اور بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحق تریپورہ کے دھرم نگر شہر کے مضافات میں واقع گوبند پور میں رہتے ہیں۔ ایک تنگ سڑک گاؤں میں جاتی ہے، جہاں مقامی لوگوں کے مطابق کبھی ۲۰۰ بنکر گھرانے اور ۶۰۰ سے زیادہ کاریگر آباد تھے۔ ’گوبند پور ہتھ کرگھا بُنکر تنظیم‘ کا دفتر انہیں تنگ گلیوں میں چند مکانات کے درمیان کھڑا ہے۔ اس کی خستہ حال دیواریں اس کی عظمت رفتہ کی کہانی سناتی ہیں۔

’’یہاں ایک بھی گھر ایسا نہیں تھا جس میں کرگھا نہ ہو،‘‘ روپ چند کہتے ہیں۔ ان کا تعلق ناتھ برادری (ریاست میں دیگر پسماندہ طبقات کے طور پر درج) سے ہے۔ سورج چمک رہا ہے اور اپنا کام جاری رکھنے کے لیے وہ چہرے سے پسینہ پونچھتے ہیں۔ ’’معاشرہ میں ہماری عزت تھی۔ اب کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ آپ ہی کہیں کہ جس پیشہ میں کوئی آمدنی نہیں ہوگی اس سے وابستہ لوگوں کی عزت کون کرے گا؟‘‘ جذبات سے مغلوب بھرائی ہوئی آواز میں وہ دریافت کرتے ہیں۔

اس تجربہ کار بُنکر کو ہاتھ سے بنی باریک نقش و نگار والی ’نقشی‘ ساڑیاں یاد ہیں۔ لیکن ۱۹۸۰ کی دہائی میں، ’’جب پُرباشا [تریپورہ حکومت کا ہتھ کرگھا اِمپوریم] نے دھرم نگر میں ایک شوروم کھولا، تو انہوں نے ہم سے نقشی ساڑیاں بنانا بند کر کے سادہ ساڑیاں بنانے کو کہا،‘‘ روپ چند یاد کرتے ہیں۔ یہ ساڑیاں ڈیزائن کی تفصیلات اور مجموعی معیار کے لحاظ سے کم تر تھیں، اور اسی وجہ سے سستی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ آہستہ آہستہ، نقشی ساڑیاں اس خطہ سے غائب ہوتی گئیں، اور ’’آج یہاں نہ تو کوئی کاریگر ہے اور نہ ہی کرگھوں کے لیے اسپیئر پارٹس (پرزوں) کی فراہمی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ ان کی باتوں کی بازگشت ربندر دیب ناتھ کے الفاظ میں سنائی دیتی ہے، جو گزشتہ چار سالوں سے بُنکر تنظیم کے صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم جو کپڑے بُنتے تھے، ان کے لیے کوئی بازار نہیں تھا۔’’ بُنائی کا کام جس جسمانی محنت کا مطالبہ کرتا ہے وہ اب ۶۳ سال کی عمر میں فراہم نہیں کرسکتے۔

Left: Roopchand Debnath (standing behind the loom) is the last handloom weaver in Tripura's Gobindapur village, and only makes gamchas now. Standing with him is Rabindra Debnath, the current president of the local weavers' association.
PHOTO • Rajdeep Bhowmik
Right: Yarns are drying in the sun after being treated with starch, ensuring a crisp, stiff and wrinkle-free finish
PHOTO • Deep Roy

بائیں: روپ چند دیب ناتھ (کرگھا کے پیچھے کھڑے) تریپورہ کے گوبند پور گاؤں کے آخری ہتھ کرگھا بنکر ہیں، اور اب صرف گمچھے (رومال) بنتے ہیں۔ ان کے ساتھ ربندر دیب ناتھ کھڑے ہیں، جو مقامی بنکر تنظیم کے موجودہ صدر ہیں۔ دائیں: دھاگے کو اسٹارچ میں ڈوبونے کے بعد دھوپ میں سُکھا جاتا ہے، تاکہ وہ کرارے، سخت اور شکن سے پاک ہو جائیں

سال ۲۰۰۵ آتے آتے روپ چند نے نقشی ساڑیاں بُننا مکمل طور پر ترک کر دیا تھا اور اب ان کی جگہ گمچھے بنانے لگے تھے۔ ’’ہم نے کبھی گمچھے نہیں بنے تھے، صرف ساڑیاں بُنتے تھے۔ لیکن ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، گوبند پور میں کرگھے کے آخری ماسٹروں میں سے ایک بتاتے ہیں۔ ’’کل سے میں نے صرف دو گمچھے بُنے ہیں۔ انہیں فروخت کرنے کے بعد مجھے بمشکل ۲۰۰ روپے ملیں گے،‘‘ روپ چند کہتے ہیں۔ ’’اور یہ میری اکیلے کی کمائی نہیں ہے۔ میری بیوی دھاگے لپیٹنے میں میری مدد کرتی ہیں۔ دراصل یہ پورے کنبے کی کمائی ہے۔ اس آمدنی سے کوئی کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟‘‘

روپ چند صبح ۹ بجے کے قریب ناشتہ کرنے کے بعد بُنائی شروع کرتے ہیں اور دوپہر سے کچھ بعد تک کام کو جاری رکھتے ہیں۔ کام پر واپس آنے سے قبل وہ غسل کرتے ہیں اور دوپہر کے کھانے کے لیے رکتے ہیں۔ عموماً اب وہ شام کو کام نہیں کرتے، کیونکہ اب ان کے جوڑوں میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب وہ جوان تھے، تو ’’میں رات گئے تک کام کرتا تھا۔‘‘

کرگھے پر کام کرتے ہوئے روپ چند کا زیادہ تر وقت گمچھے بُننے میں گزرتا ہے۔ سستا اور پائیدار ہونے کی وجہ سے یہاں اور بنگال کے ایک بڑے علاقہ کے بہت سے گھرانوں میں گمچھے کا استعمال ہنوز جاری ہے۔ ’’میں جو گمچھا بناتا ہوں وہ [عموماً] اس طرح بنائے جاتے ہیں،‘‘ روپ چند سفید اور سبز دھاگوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن سے گمچھے کا مرکزی حصہ بنا جاتا ہے، اور قدرے دبیز کناروں پر چمکدار سرخ دھاگے استعمال ہوتے ہیں۔ ’’ہم پہلے ان دھاگوں کو خود ہی رنگتے تھے۔ تقریباً پچھلے ۱۰ سالوں سے ہم بُنکر تنظیم سے رنگے ہوئے دھاگے خرید رہے ہیں،‘‘ ہمیں بتاتے ہوئے وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ وہ خود بھی اپنے ہی بنے ہوئے گمچھوں کا استعمال کرتے ہیں۔

لیکن سوال ہے کہ ہتھ کرگھا صنعت کے حالات میں کب تبدیلی آئی؟ روپ چند کہتے ہیں، ’’یہ تبدیلی بنیادی طور پر پاور لومز کے متعارف ہونے اور دھاگوں کے معیار میں گراوٹ کی وجہ سے آئی۔ ہم جیسے بنکر پاور لومز کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘‘

Left: Spool winding wheels made of bamboo are used for skeining, the process of winding thread on a rotating reel to form a skein of uniform thickness. This process is usually performed by Basana Debnath, Roopchand's wife.
PHOTO • Rajdeep Bhowmik
Right: Bundles of yarns to be used for weaving
PHOTO • Rajdeep Bhowmik

بائیں: بانس سے بنی چرخی کا استعمال دھاگوں کو ریل میں لپیٹنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں دھاگوں کو ایسے لپیٹا جاتا ہے کہ وہ یکساں موٹائی اختیار کر لیں۔ اس عمل کو عام طور پر روپ چند کی بیوی بسنا دیب ناتھ انجام دیتی ہیں۔ دائیں: بُنائی کے لیے استعمال کیے جانے والے دھاگوں کے بنڈل

Left: Roopchand learnt the craft from his father and has been in weaving since the 1970s. He bought this particular loom around 20 years ago.
PHOTO • Rajdeep Bhowmik
Right: Roopchand weaving a gamcha while operating the loom with his bare feet
PHOTO • Rajdeep Bhowmik

بائیں: روپ چند نے یہ دستکاری اپنے والد سے سیکھی اور ۱۹۷۰ کی دہائی سے بُنائی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ خاص کرگھا تقریباً ۲۰ سال قبل خریدا تھا۔ دائیں: روپ چند ننگے پیر کرگھا چلاتے ہوئے گمچھے کی بُنائی کر رہے ہیں

پاورلوم اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ زیادہ تر بنکروں کے لیے انہیں اپنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، گوبند پور جیسے گاؤوں میں ایسی دکانیں نہیں ہیں جو کرگھے کے پرزے فروخت کرتی ہوں اور مرمت کا کام بھی یہاں ایک چیلنج ہے، جس کی وجہ سے بہت سے بنکروں کا حوصلہ پست ہو جاتا تھا۔ روپ چند کہتے ہیں کہ اب وہ اتنے بوڑھے ہوچکے ہیں کہ اس مشین کو نہیں چلا سکتے۔

’’میں نے حال ہی میں ۱۲۰۰۰ روپے کے عوض ۲۲ کلو دھاگہ خریدا ہے، جس کی قیمت پچھلے سال تقریباً ۹۰۰۰ روپے تھی۔ اپنی موجودہ صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے ان دھاگوں سے تقریباً ۱۵۰ گمچھے بنانے میں تقریباً ۳ ماہ کا وقت لگے گا…اور میں انہیں بنکر تنظیم کو صرف ۱۶۰۰۰ روپے میں فروخت کروں گا،‘‘ روپ چند بے بسی سے کہتے ہیں۔

*****

روپ چند کی پیدائش بنگلہ دیش کے سلہٹ میں ۱۹۵۰ کے آس پاس ہوئی تھی اور وہ ۱۹۵۶ میں ہجرت کرکے ہندوستان آگئے تھے۔ ’’میرے والد نے یہاں ہندوستان میں بُنائی کا کام جاری رکھا۔ میں نے اسکول چھوڑنے سے پہلے ۹ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ نوجوان روپ چند نے اس کے بعد مقامی بجلی محکمہ میں ملازمت اختیار کی، ’’کام محنت طلب تھا، اور تنخواہ بہت کم تھی، اس لیے میں نے چار سال بعد نوکری چھوڑ دی۔‘‘

اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والد سے بُنائی کا کام سیکھیں گے، جو ایک خاندانی بُنکر تھے۔ ’’اس وقت ہینڈ لوم [صنعت] سے اچھی آمدنی ہوتی تھی۔ میں نے ۱۵ روپے میں بھی ساڑیاں بیچی ہیں۔ اگر میں نے یہ ہنر نہیں سیکھا ہوتا، تو میں اپنے طبی اخراجات پورے نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی اپنی [تین] بہنوں کی شادی کرا سکتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

Left: Roopchand began his journey as a weaver with nakshi sarees which had elaborate floral motifs. But in the 1980s, they were asked by the state emporium to weave cotton sarees with no designs. By 2005, Roopchand had switched completely to weaving only gamcha s.
PHOTO • Rajdeep Bhowmik
Right: Basana Debnath helps her husband with his work along with performing all the household chores
PHOTO • Deep Roy

بائیں: روپ چند نے بطور بنکر اپنے سفر کا آغاز نقشی ساڑیوں کے ساتھ کیا تھا، جن پر پھولوں کے باریک نمونے بنے ہوتے تھے۔ لیکن ۱۹۸۰ کی دہائی میں ریاستی اِمپوریم نے انہیں بغیر کسی ڈیزائن کی سوتی ساڑیاں بُننے کو کہا۔ سال ۲۰۰۵ آتے آتے روپ چند صرف گمچھوں کی بُنائی میں لگ گئے تھے۔ دائیں: بسنا دیب ناتھ گھر کے تمام کام انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کی بھی مدد کرتی ہیں

Left: There may be many difficulties in the handloom industry now, but Roopchand does not want to quit. 'I have never put greed before my craft,' he says.
PHOTO • Rajdeep Bhowmik
Right: Roopchand winding thread to form skeins
PHOTO • Rajdeep Bhowmik

بائیں: ہتھ کرگھا صنعت کو فی الحال بے شمار مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، لیکن روپ چند یہ کام چھوڑنا نہیں چاہتے۔ ’میں نے اپنے ہنر پر لالچ کو کبھی ترجیح نہیں دی،‘ وہ کہتے ہیں۔ دائیں: دھاگوں کو رِیل میں لپیٹتے ہوئے روپ چند

ان کی بیوی بسنا دیب ناتھ کو یاد ہے کہ انہوں نے شادی کے فوراً بعد ہی اپنے شوہر کی مدد کرنا شروع کر دیا تھا۔ ’’اس وقت ہمارے پاس چار کرگھے ہوا کرتے تھے اور میرے شوہر اس وقت میرے سسر سے کام سیکھ رہے تھے،‘‘ وہ دوسرے کمرے سے آ رہی کرگھے کی آواز کے درمیان کہتی ہیں، جہاں ان کے شوہر کام کر رہے ہیں۔

بسنا کا دن روپ چند کے دن سے زیادہ طویل ہوتا ہے۔ وہ صبح اٹھنے کے بعد گھر کا کام کرتی ہیں۔ دوپہر کا کھانا پکانے کے بعد دھاگوں کو لپیٹ کر اپنے شوہر کی مدد کرتی ہیں۔ صرف شام کو ہی کچھ فرصت ملتی ہے۔ ’’دھاگوں کو لپیٹنے اور ریل بنانے کا سارا کام وہی کرتی ہیں،‘‘ روپ چند بڑے فخر سے تسلیم کرتے ہیں۔

روپ چند اور بسنا کے چار بچے ہیں۔ دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں، اور دو بیٹے ہیں جن میں ایک مستری اور دوسرا جوہری ہے۔ دونوں کا قیام ان کی رہائش گاہ کے قریب ہی ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا لوگ روایتی ہنر اور دستکاری سے رشتہ توڑ رہے ہیں، استاد خود احتسابی کرتے ہیں، ’’میں بھی ناکام رہا ہوں، ورنہ میں خود اپنے بچوں کو ادھر مائل نہیں کراتا؟‘‘

*****

جہاں ہندوستان کے ۳ء۹۳ فیصد ہتھ کرگھا بنکر کنبوں کی آمدنی ۱۰ ہزار روپے سے کم ہے، وہیں تریپورہ کے ۴ء۸۶ بنکر گھرانوں کمائی ۵۰۰۰ روپے سے بھی کم ہے ( کرگھوں کی چوتھی کل ہند گنتی ، ۲۰۱۹-۲۰۲۰)۔

’’یہاں یہ دستکاری آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہے،‘‘ روپ چند کے پڑوسی، ارون بھومک کہتے ہیں۔  ’’اس کے تحفظ کے لیے ہمیں جتنی کوششیں کرنی چاہئیں اتنی نہیں کر رہے ہیں۔‘‘ ان کے خیالات کی بازگشت گاؤں کے ایک اور سینئر ممبر، ننی گوپال بھومک کی آواز میں سنائی دیتی ہے، ’’لوگ کم کام سے زیادہ پیسے کمانا چاہتے ہیں،‘‘ وہ آہ بھرتے ہیں۔ روپ چند مزید کہتے ہیں ، ’’بُنکر [ہمیشہ] جھونپڑیوں اور کچے مکانوں میں رہتے ہیں۔ اس طرح کون زندگی گزارنا چاہتا ہے؟‘‘

Left: Roopchand and Basana Debnath in front of their mud house .
PHOTO • Deep Roy
Right: A hut made from bamboo and mud with a tin roof serves as Roopchand's workspace
PHOTO • Deep Roy

بائیں: روپ چند اور بسنا دیب ناتھ اپنے کچے گھر کے سامنے۔ دائیں: ٹین کی چھت کے ساتھ بانس اور مٹی سے بنی جھونپڑی روپ چند کا کارخانہ ہے

آمدنی کی کمی کے علاوہ صحت کے مسائل، جن میں سے بہت سے طویل مدتی امراض شامل ہوتے ہیں، سے بنکروں کو نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ ’’میں اور میری بیوی ہرسال صرف طبی اخراجات پر ۵۰ سے ۶۰ ہزار روپے خرچ کرتے ہیں،‘‘ روپ چند کہتے ہیں۔ یہ جوڑا سانس کی پریشانی اور دل کی پیچیدگیوں کا شکار ہے، جو اس پیشہ کا نتیجہ ہیں۔

حکومت کی جانب سے دستکاری کے اس ہنر کو تحفظ فراہم کرنے کی کچھ کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن روپ چند اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ ’’میں نے دین دیال ہتھ کرگھا پروتساہن یوجنا [سال ۲۰۰۰ میں شروع کی گئی مرکزی حکومت کی پہل] کے ذریعے ۳۰۰ سے زیادہ بنکروں کی تربیت کی ہے،‘‘ روپ چند کہتے ہیں۔ ’’تربیت حاصل کرنے والوں کو تلاش کرنا مشکل ہے،‘‘ وہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’لوگ زیادہ تر وظیفہ کے حصول کے لیے آتے ہیں۔ اس طرح ہنر مند بنکر پیدا کرنا ناممکن ہے۔ روپ چند مزید کہتے ہیں کہ ’’ہتھ کرگھا کے رکھ رکھاؤ میں لاپرواہی، لکڑی پر دیمک لگنے اور چوہوں کے ذریعے سوت کی تباہی‘‘ کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔

سال ۲۰۱۲ اور ۲۰۲۲ کے درمیان ہینڈ لوم کی برآمدات  میں تقریباً ۵۰ فیصد کی کمی آئی ہے۔ یہ برآمدات تقریباً ۳۰۰۰ کروڑ سے کم ہو کر ۱۵۰۰ کروڑ ( ہینڈ لوم ایکسپورٹ پروموشن کونسل ) تک پہنچ گئیں ہیں اور وزارت کے فنڈز میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

ریاست میں ہتھ کرگھا صنعت کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ روپ چند کہتے ہیں، ’’مجھے لگتا ہے کہ اسے درست کرنا ناممکن ہے۔‘‘ لیکن وہ ایک لمحہ کے توقف کے بعد اس کا حل بھی پیش کر دیتے ہیں۔ ’’خواتین کی زیادہ شمولیت سے مدد ملے گی،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے سدھائی موہن پور [مغربی تریپورہ میں ایک تجارتی ہینڈ لوم پروڈکشن سائٹ] میں زبردست افرادی قوت دیکھی ہے، جو تقریباً مکمل طور پر خواتین پر مشتمل ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ صورت حال کو درست کرنے کا ایک اور طریقہ موجودہ دستکاروں کے لیے یومیہ اجرت مقرر کرنا بھی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے کبھی اس کام کو چھوڑنے پر غور کیا ہے، تو روپ چند مسکراتے ہیں۔ ’’کبھی نہیں،‘‘ وہ پرعزم انداز میں جواب دیتے ہیں، ’’میں نے کبھی لالچ کو اپنے ہنر پر ترجیح نہیں دی۔‘‘ جیسے ہی کرگھے پر ہاتھ رکھتے ہیں، ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ ’’یہ مجھے چھوڑ سکتی ہے، لیکن میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Rajdeep Bhowmik

Rajdeep Bhowmik is a Ph.D student at IISER, Pune. He is a PARI-MMF fellow for 2023.

Other stories by Rajdeep Bhowmik
Deep Roy

Deep Roy is a Post Graduate Resident Doctor at Safdarjung Hospital, New Delhi. He is a PARI-MMF fellow for 2023.

Other stories by Deep Roy
Photographs : Rajdeep Bhowmik

Rajdeep Bhowmik is a Ph.D student at IISER, Pune. He is a PARI-MMF fellow for 2023.

Other stories by Rajdeep Bhowmik
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam