ممکن ہے کہ ساتجیلیا کا یہ ڈاکخانہ آپ کو دکھائی بھی نہ دے۔ یہ مٹی کی ایک جھونپڑی میں بنا ہے اور باہر ٹنگے دھات کے لال لیٹر باکس سے ہی اس کے ڈاکخانہ ہونے کا قیاس لگایا جا سکتا ہے۔

مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کا یہ ۸۰ سال پرانا ذیلی ڈاکخانہ سات گرام پنچایتوں کو اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ مٹی کے بنے اس ڈھانچہ نے آئیلا اور امفان جیسے خطرناک سمندری طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے، جنہوں نے سندربن علاقے میں بھاری تباہی مچائی تھی۔ ایسے بہت سے مقامی لوگوں کے لیے یہ شہ رگ کی طرح ہے، جن کا ڈاکخانہ میں بچت کھاتہ ہے۔ ان کے سرکاری کاغذات، مثلاً کئی قسم کے شناختی کارڈ وغیرہ پوسٹ کے ذریعہ یہیں آتے ہیں۔

گوسابا بلاک تین طرف سے ندیوں سے گھرا ہوا ہے – شمال مغرب میں گومتی سے، جنوب میں دتّہ سے اور مشرق میں گندل سے۔ جَینت منڈل، جو لکش باغان کے رہائشی ہیں، کہتے ہیں، ’’یہ ڈاکخانہ اس جزیرہ میں ہمارا واحد سہارا ہے۔ اسی کے ذریعہ ہم تک کوئی بھی سرکاری کاغذ پہنچ پاتا ہے۔

یہاں کے موجودہ ہیڈ پوسٹ ماسٹر نرنجن منڈل، گزشتہ ۴۰ برسوں سے اسی ڈاکخانہ میں کام کرتے ہیں۔ ان سے پہلے ان کے والد یہاں پوسٹ ماسٹر تھے۔ ہر صبح وہ گھر سے پیدل ہی اپنے ڈاکخانہ تک جاتے ہیں، جو چند منٹوں کے ہی فاصلہ پر ہے۔ ڈاکخانہ کے پاس واقع ایک چائے کی دکان میں دن بھر لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ڈاکخانہ میں لوگ لگاتار آتے رہتے ہیں۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: ڈاکخانہ کے پاس واقع ندی کا کنارا۔ دائیں: ڈاکخانہ مٹی کی ایک جھونپڑی میں چلتا ہے اور اس سے گوسابا بلاک کی سات گرام پنچایتیں مستفید ہوتی ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: اس ڈاکخانہ کے پوسٹ ماسٹر نرنجن منڈل، اور چپراسی بابو۔ دائیں: یہاں ان باشندوں کے لیے، جن کے پاس بچت کھاتہ ہے، یہ ڈاکخانہ ان کی شہ رگ ہے اور لوگوں کے سرکاری کاغذات ڈاک کے ذریعہ یہیں آتے ہیں

اس ۵۹ سالہ پوسٹ ماسٹر کا کام صبح ۱۰ بجے شروع ہو جاتا ہے اور شام کو ۴ بجے تک چلتا ہے۔ ڈاکخانہ کے اندر سولر پینل کے ذریعہ روشنی ہوتی ہے، جو مانسون کے موسم میں بہت کارگر نہیں رہتی۔ جب سولر پینل چارج نہیں رہتے، تو ملازمین مٹی کے تیل (کیروسین) سے جلنے والے لیمپ کا استعمال کرتے ہیں۔ ملازمین کو رکھ رکھاؤ کے نام پر ۱۰۰ روپے ماہانہ ملتا ہے – ۵۰ روپے کرایہ ادا کرنے کے لیے اور ۵۰ روپے چائے پانی کے لیے۔ یہ بات نرنجن سے ہی پتہ چلتی ہے۔

نرنجن کے ساتھ بابو بطور چپراسی کام کرتے ہیں، جن کا کام گرام پنچایتوں کے گھروں میں خط پہنچانا ہے۔ اس کے لیے، وہ اپنی سائیکل کا استعمال کرتے ہیں۔

تقریباً آدھی صدی تک ڈاکخانہ میں کام کرنے کے بعد، نرنجن بابو اب کچھ سالوں میں ہی ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اس سے پہلے، ’’میرا یہی خواب ہے کہ ڈاکخانہ کے لیے پختہ عمارت بنانے کا کام شروع ہو جائے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

نامہ نگار اس رپورٹنگ میں مدد کے لیے اورنا راوت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Ritayan Mukherjee

Ritayan Mukherjee is a Kolkata-based photographer and a PARI Senior Fellow. He is working on a long-term project that documents the lives of pastoral and nomadic communities in India.

Other stories by Ritayan Mukherjee
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique